اب پھر الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا ہے لوگوں کو یقین ہی نہیں آرہا امیدوار اور ان کے سپورٹرز تذبذب کا شکار ہیں اس سے پہلے اعلیٰ عدلیہ کی سر توڑ کوشش اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بھرپور خواہش کے باوجود بلدیاتی اداروں کے انتخابات نہ ہوسکے اب بلدیاتی نظام پر عملاً افسرشاہی کی حکومت ہے ایک ایک افسر کے پاس درجن بھر یونین کونسلوں کا چارج ہے جو سرکاری ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ اس اضافی کام کیلئے انصاف ہی نہیں کر سکتے۔
جب لوکل باڈیز الیکشن کے انعقادکااعلان کیا گیا عوام انتہائی پر جوش تھے گلی گلی کوچے کوچے رونقیں دیدنی تھیں آئے روز التواء کی متصاد قسم کی خبروں سے امیدوار اندر سے پریشان تھے لیکن لوگوںکے سامنے اس کااظہار بھی نہیں کرتے تھے اب چونکہبلدیاتی انتخابات غیر معینہ مدت کیلئے لٹک گئے ہیں نئی مردم شماری اور نئے سرے سے حلقہ بندیاں کرنے سے خدشہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات ایک سال سے زائد مدت کیلئے ملتوی ہو جائیں گے اس طرح ملک بھر میں لاکھوں امیدواروں کے اربوں روپے ڈوب گئے جس کی وجہ سے عوام کے ساتھ ساتھ امیدواروں کے چہرے بھی مر جھا گئے ہیں۔
کافی سے بیشتر امیدواروں نے انتخابی دفاتر بند کردئیے ہیں جبکہ کئی امیدوار ا ب بھی عوام سے رابطے میں لیکن وہ تذبذب کا شکار ہیں اس کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر عوام اپنے مسائل کے حل کیلئے بیوروکریسی کے محتاج ہو کررہ گئے ہیں مہنگائی اور بدامنی نے عوام کی زندگی مشکل بنادی ہے بلدیاتی اداروں کے الیکشن سے امیدہوگئی تھی کہ اب مسائل پہلی سٹیج پر ہی حل ہونے کی سبیل نکل آئے گی لاہور کے کئی علاقے ایسے ہیں وہاں مسائل کی بھرمارہے لوگ گندے پانی کے نکاس ،پینے کا پانی انتہائی آلودہ ،ٹوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر اور مسائل در مسائل سے یہ آبادیاں دیہات کا منظر پیش کررہی ہیں لگتا ہی نہیں یہ لاہور کا علاقہ ہے بلکہ اسے لاہور کہنا بھی لاہور کی بے عزتی محسوس ہوتی ہے۔
Municipal Elections
یہ علا قے جنجال پورہ بنے ہوئے ہیں اس وقت آدھا لاہور مسائلستان بناہوا ہے لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ میاں شہباز شریف جیسے وزیر ِ اعلیٰ نے عوام کو ان کے حل پر چھوڑ دیا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت لاہور میں متعدد میگا پرا جیکٹ پرکام ہورہا ہے جو میاں شہباز شریف کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے تکمیل کے مختلف مراحل میں ہیں۔۔۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جن علاقوںمیں ترقیاتی کام ہورہے ہیں کیا حکمرانوں کی نظر میں وہی لاہورہے؟ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس ترقی میں سب کو شامل کیا جاتا ۔۔یہ بات ریادہ اہم ہے کہ جو کام اداروں کے کرنے کیلئے ہوتے ہیں وہ ایک روٹین ورک میں ادارے ہی بہتر کرسکتے ہیں جنرل مشرف کا وضح کردہ بلدیاتی نظام ایک بہتر سسٹم تھا۔
اس سے اختلاف کرنا سب کا حق ہے لیکن یہ بات ماننی پڑے گی کہ ضلعی حکومتوں کے دورمیں پاکستان کی تاریخ میںملک بھر میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام ہوئے افادیت کے اعتبارسے یہ ایک اچھا نظام تھا پنجاب میں مسلم لیگ ن نے ضلعی حکومتوں کی زبردست مخالفت کی اسے نری کرپشن قرار دے کرسختی سے مسترد کردیا اور کونسلروںپر مبنی پرانا نظام بحال کرنے کااعلان کیا مزے کی بات یہ ہے کہ آج تک ایک ضلعی یا تحصیل ۔۔حتیٰ کہ کسی یونین کونسل کے چیئر مین کے خلاف بھی کرپشن کاایک بھی کیس رجسٹرڈ نہیں کروایا گیا یعنی۔
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرہ ِ خوں بھی نہ نکلا
حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے ڈکٹیٹر کے نافذ کردہ اسی کرپٹ ضلعی حکومتوں کے نظام کو ہی شرفِ قبولیت بخش ڈالا ناظم کا نام چیئرمین اورنائب ناظم کا نام وائس چیئرمین رکھ کر اسے نیا نظام بناکر پنجاب اسمبلی سے بھی منظور کروالیا گیا یہ الگ بات کہ اختیارات صلب کرلئے گئے یا کم کردئیے گئے اس کا صاف صاف مطلب یہ ہوا ایک ڈکٹیٹر نے پہلی بارعوامی نمائندوںکو نچلی سطح پر بااختیار بنایا اور جمہوریت کے دعویداروں نے ان اختیارات میں اضافہ کرنے کی بجائے اسے بے دست و پا بنا دیا اور بلدیاتی انتخابات نہ کروا کر افسرشاہی کے اختیارات کو مزید مستحکم بنا ڈالا اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے دل میں کروڑوں عوام کی خواہش کا کوئی احترام نہیں یہی وجہ ہے کہ جب بھی جمہوریت پر شب خون مارا گیا منتخب وزیر ِ اعظم کی حمایت میں کسی شخص نے سڑکوںپرآنا پسند نہیں کیا شاید حکمران اپنے آپ کو بادشاہ سلامت سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے کسی جمہوری حکمران نے آج تلک بلدیاتی انتخابات کروانے کا تکلف نہیں کیا تاریخ اٹھا کر خود ملاحظہ کرلیں جب بھی لوکل باڈیز الیکشن ہوئے کسی نہ کسی ڈکٹیٹر کی چھتری تلے ہی ہوئے ہیں پھر کس طرح ہمارے حکمران خودکو عوامی سمجھتے ہیں خدا خدا کرکے اب خیبر پختونخواہ کی حکومت نے اپریل میں بلدیاتی انتخابات کروانے کااعلان کیا ہے خدا کر کے یہ اعلان محض اعلان ہی نہ ہو سچ مچ سچا اعلان ہو دیکھئے ابپنجاب اور سندھ میں نچلی سطح پر جمہوریت کب آتی ہے۔
لاکھوں امیدوار اب تک اربوں روپے کاغذات ِ نامزدگی کی صورت میں جمع کروا چکے ہیں سینکڑوںلڑائی ،جھگڑے اور متعدد قتل بھی ہو چکے ہیں بلدیاتی انتخابات کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے یہ الیکشن ہر چار سال بعد ہوتے رہیں تو پاکستان میں جمہوریت پھلنے اور پھولنے کا خواب شرمندہ ٔ تعبیرہو سکتاہے اس وقت ہماری اسمبلیوں میں ایک بڑی تعداد ان افرادکی ہے جو ماضی میں بلدیاتی اداروں کاحصہ رہے ہیں بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ وہی لوگوںکی اکثریت بلدیاتی انتخابات کروانے کے حق میں نہیں شاید اس لئے کہ کونسلروں چیئر مینوں کو فنڈ ملنے لگے تو ارکان ِ اسمبلی کی مناپلی ختم ہو جائے گی اور اسمبلیاں محض قانون ساز ادارے بن کررہ جائیں گی اور بلدیاتی اداروں کے فنڈزسے ایم پی اے ،ایم این اے حضرات کی موجیں ختم ہوجائیں گی۔
آگے آتی تھی حال ِ دل پر ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی
آئی بات سمجھ میں؟ عمران خان نے وعدہ کرنے اور خیبر پی کے حکومت نے اپریل میں بلدیاتی انتخابات کروانے کااعلان کرکے بھی الیکشن نہیں کروائے لوگ کس پر یقین کریں کس پر نہ کریں کچھ سمجھ میں نہیں آتا اب پھر الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کروانے کااعلان کر دیا ہے لوگوں کو یقین ہی نہیں آرہا ایک بات طے ہے جب حکومت کی مرضی ہوگی بلدیاتی انتخابات تبھی ہو ں گے یہی سچائی ہے۔