تحریر :عبدالرزاق چودھری پانچ دسمبر کو منعقدہ بلدیاتی الیکشن کے تیسرے مرحلہ میں پنجاب میں مسلم لیگ نون نے اپنی سیاسی پوزیشن مستحکم کر لی ہے جبکہ کراچی میں ایم کیو ایم نے اک مرتبہ پھر سیاسی کھڑاک کرتے ہوے مقابل سیاسی جماعتوں پر برتری ثابت کر دی ہے ۔کراچی آپریشن کی بازگشت کے تناظر میں اور ایم کیو ایم کی صفوں میں موجود جرائم پیشہ عناصر کی نشاندہی اور بازیابی کے سبب بعض سیاسی تجزیہ کار اس بات کا عندیہ دے رہے تھے کہ ایم کیو ایم سیاسی اعتبار سے کمزور ہو چکی ہے اور مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو کر اپنا حقیقی سیاسی تشخص کھو دے گی اور یہ گمان انتخابات میں عملی صورت میں نمایاں ہو کر سامنے آ جائے گاان اندازوں اور قیافوں کے سبب کراچی کے بلدیاتی انتخابات خاصی اہمیت اختیار کر گئے تھے اور سیاسی پنڈتوں کی نظریں کراچی کے انتخابات کے نتائج پر مرکوز تھیں جن کی روشنی میں وہ بہتر اندازہ کر سکتے تھے کہ مستقبل میں وطن عزیز کی سیاست کا نقشہ کیسے مرتب ہو گا۔تاہم حالیہ منعقدہ بلدیاتی الیکشن کے نتائج نے سوچ کے اس انداز کی نفی کر دی ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم سیاسی اعتبار سے کمزور ہو چکی ہے اور وہ عوام میں اپنی ساکھ کھو رہی ہے۔ایم کیو ایم انتخابات میں واضح مارجن سے جیت چکی ہے اور اس فتح نے اس کے سیاسی وجود میں اک نئی روح پھونک دی ہے جس کی جھلک مستقبل میں کراچی کی فضا میں محسوس کی جا سکے گی ۔
یاد رہے کراچی میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا سیاسی اتحاد ایم کیو ایم کے مقابل صف آرا تھالیکن یہ اتحاد توقعات پر پورا اترنے میں یکسر ناکام رہا اور انتخابی نتائج اس اتحاد کے لیے مایوس کن رہے حتیٰ کہ حافظ نعیم الرحمٰن جو جماعت اسلامی کی جانب سے کراچی کی میئر شپ کے متوقع امیدوار تھے ایم کیو ایم کے امیدوار کے ہاتھوں واضح مارجن سے شکست کھا گئے جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف کراچی کے سرکردہ رہنما علی زیدی بھی اپنی نشست بچانے میں ناکام رہے اور وہ بھی مخالف امیدوار سے ہار گئے ۔حالیہ بلدیاتی انتخابات جہاں مسلم لیگ نون اور ایم کیو ایم کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں وہیں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے لیے کئی سوالات چھوڑ گئے ہیں۔تحریک انصاف کے سربراہ اور ذمہ داران کو نہایت سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ لاکھوں کا مجمع اکٹھا کر لینے کی صلاحیت سے معمور یہ جماعت ان افراد کو ووٹرز میں تبدیل کیوں نہیں کر پائی اور کب تک نمائشی جلسوں کے جلو میں پارٹی کی سیاست چمکائی جاتی رہے گی ۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ تحریک انصاف کی مقبولیت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے ۔
PTI
تنظیمی اعتبار سے کمزور اس جماعت کے تھنک ٹینک کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا اور اس امر پر غور کرنا ہو گا کہ فوج کی جانب سے بیڈ گورننس کی نشاندہی کے باوجود نون لیگ عوامی پزیرائی کے گھوڑے پر سوار ہے ۔ آخر وہ وہ کیا غلطیاں ہیں جو تحریک انصاف سے سرزد ہوئی ہیں کہ وہ اپنی مقبولیت برقرار نہیں رکھ پائی ان خامیوں اور کوتاہیوں کا سراغ لگا کر ان پر قابو پا کر مستقبل میں ایک جامع اور مربوط سیاسی حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے وگرنہ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن بھی دو ہزار تیرہ کا عکس ثابت ہوں گے اور سربراہ تحریک انصاف کے لیے اقتدار کا حصول خواب ہی رہے گا۔علاوہ ازیں جماعت اسلامی کو بھی اپنی طرز سیاست پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج جماعت اسلامی کے لیے لمحہ فکریہ ہیں ۔تنظیمی ،فکری اور سیاسی اعتبار سے جماعت اسلامی عمدہ اسلوب کی حامل جماعت ہے مگر کچھ عرصہ سے سیاسی میدان میں قابل ذکر کارکردگی دکھانے سے قطعی قاصر ہے لہٰذا جماعت اسلامی کے قائدین کو اپنے کارکنوں کو متحرک کرنے کے علاوہ سیاسی فلسفہ کو فروغ دینے کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے ۔
سیاسی پچ پر اگر کسی جماعت کے سیاسی کھلاڑی عمدگی سے اسٹروک کھیلنے میں مگن ہیں تو وہ مسلم لیگ نون ہے ۔مسلم لیگ نون مخالف سیاسی جماعتوں کی غیر دانشمندانہ حکمت عملی سے خوب فائدہ اٹھا رہی ہے اور طرز حکمرانی میں موجود بے شمار سقم ہونے کے باوجود بلا شرکت غیرے اقتدار کے مزے لوٹنے میں مصروف ہے ۔اگرچہ مسلم لیگ نون کو پنجاب میں تحریک انصاف کی جانب سے معمولی مزاحمت کا سامنا ہے لیکن مجموعی طور پر اس کی سیاسی ساکھ مستحکم ہے اور مستقبل قریب میں یہی صورتحال کار فرما دکھائی دیتی ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ گزشتہ تیس سال سے مسلم لیگی قیادت وقفے وقفے سے ملک پر حکمرانی کرتی رہی اور یہی وجہ ہے کہ وہ عوام کی نفسیات سے بخوبی آگاہ ہے اور وہ ایسے عوامی اور فلاحی منصوبوں کا اعلان فرماتے رہتے ہیں جو عوامی سطح پر پذیرائی حاصل کرتے ہیں خواہ وہ نتائج کے اعتبار سے غیر معیاری ہی کیوں نہ ہوں اور تالیوں کی گونج میں ان کے اقتدار کا ہما طول سے طویل ترہوتا جا رہا ہے حتیٰ کہ جغادری سیاسی تجزیہ کار بھی حیران ہیں کہ ان کے پاس کون سی گیدڑ سنگی ہے جس کے بل بوتے پر انتظامی نااہلی کے عیاں ہونے کے باوجود اکثریتی عوام کے منظور نظر ہیں او ر عوام حق رائے دہی کا استعمال کرتے وقت اپنی رائے کو ان ہی کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں ۔ یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔
PPP
سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی ناقص کارکردگی سے وطن عزیز کا بچہ بچہ واقف ہے اور کرپشن کی ہوشربا داستانیں بھی ملک کے ہر فرد کو از بر ہیں۔ اس کے باوجود سندھی عوام کی اکثریت پیپلز پارٹی ہی کو ووٹ دیتی ہے بلکہ اک مدت سے سندھ کی دھرتی پر پیپلز پارٹی کا راج ہے اور کوئی بھی سیاسی پارٹی سندھ میں اس کو زیر نہیں کر سکی ۔پیپلز پارٹی نے جب دو ہزار آٹھ کے الیکشن میں فتح یاب ہو کر مرکزی حکومت کا سہرا اپنے سر سجایا تو کچھ ہی عرصہ بعد پاکستانی میڈیا عوام سمیت پیپلز پارٹی کے اہم رہنماوں کی کرپشن پر چیخ اٹھا اور ہر روز نئی اور اپنی نوعیت کی انوکھی کرپشن کہانی میڈیا کی زینت بننے لگی اور آج تک کرپشن کے وہ الزامات تروتازہ ہیں۔ لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں عوامی ووٹوں ہی سے فتح مند ہوئی ہے اور عوام نے اس کو تمام تر الزامات سمیت قبول کیا ہے ۔
عوام کے اس قسم کے فیصلوں کو دیکھ کر بعض اوقات مجھ جیسے ناقص خیالوں کا قلم ڈگمگانے لگتا ہے اس بابت لکھیں تو کیا لکھیں۔وطن عزیز کا بصیرت سے معمور طبقہ انگشت بدنداں ہے کہ عوام کب تک ان ہی جماعتوں کو آزماتی رہے گی جو برسوں سے اپنی ناقص طرز حکمرانی کے قلعے تعمیر کر چکی ہیں اور آئندہ بھی ان سے اسی قسم کے نتائج کی توقع ہے ۔ اگر قومی سیاسی رہنماوں کے طرز عمل پر نظر دوڑائی جائے تو ایک بھی انقلابی سوچ کا حامل سیاست دان نظر نہیں آتا جو اپنے ذاتی مفاد کو پس پشت ڈال کر عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوے ایسے اقدامات کرے جو ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا پیش خیمہ ہوں ۔