تحریر : بدر سرحدی قانون سے کوئی بالاتر نہیں …ہر روز ہر ایک سے میڈیا کے ذریعہ یہ نصابی بات سنتے آ رہے ہیں کہ قانون سے کوئی بالا نہیں ،تین برس ہوئے جب عدالت عظمےٰ نے حکم دیا کہ کنٹونمنٹ بورڈز میں مقامی انتخابات کرائے جائیںمگر آج تک اِس عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا گیا کیوں..؟عدالت عظمےٰ کے حکم پر عمل در آمد نہ ہونے سے یہ ظاہر ہوأ کہ کوئی تو ہے جو قانون سے بالا ہے بلکہ قانون ….!اب عدالت نے حکم دے دیا اِس پر عمل کون کرے یا کرائے گا ،اور یہ بھی ظاہر ہے جس نے بھی یا جو کوئی بھی اس حکم کی بجا آوری کی راہ میں حائل ہے وہی قانون سے بالاتر ہے ،ثابت ہوأ کہ یہ جو کہا جاتا کہ کوئی قانون سے بالا نہیں غلط ہے،کہ ایک مقام پر قانون و حکم دونوں ہی بے بس نظر آتے ہیں
٢٧ فروری ٢٠١٥ئ،عدالتِ میںایک شہری ربنواز کی درخواست ،کہ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کے کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں ،مگر تین برس بیت گئے وفاقی حکومت نے کسی کنونمنٹ بورڈ میں مقامی انتخابات نہیں کرائے ، عدالت نے وزیر آعظم کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے جو ریمارکس دئے وہ قابل غور ہیں،جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئے کہ اگر بلدیاتی انتخابات نہیں کرانے تو آئین ہی کو کوڑے دان میں پھینک دیا جائے انہوں نے مزید کہا کہ حکومت در اصل عوام کو با اختیارات بنانا نہیں چاہتی،،(یہ جمہوری لبادہ اوڑے آمر نہیں چاہتے کہ عوام بھی کسی طرح اقتدار میں شریک ہوں اور کل ہمارے مقابل آئیں یہ کام شخصی آمروں کے کھاتے میں جاتا ہے انہوں نے اختیارات کو نچلی سطح تک لانے میںبخل سے کام نہیں لیا اور بلدیاتی انتخابات کرا کر مقامی حکومت بنا کر اختیارات نچلی سطح پر مقامی حکومتوں کے ذریعہ عوام کو دئے ،
مگر آج تک کسی نام نہاد جمہوری سیاسی حکومت نے نہ تو کبھی بلدیاتی انتخابات کرائے اور نہ ہی اختیارات مقامی حکومت کے زریعہ عوام تک منتقل کئے) اور اب عدالت عظمیٰ کو یہ کہنا پڑا کے بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں ورنہ یہ آئین ہی کوڑے دان میں ….! عدالت نے الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا زمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر مقامی انتخابات کے لئے قانون سازی نہیں ہوئی یا قانون میں کوئی نقص ہے تو بھی الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کرانے کا پا بند ہے اور پارلیمنٹ سمیت کوئی ادارہ یا فرد الیکشن کمیشن کو اس کے فرض کی ادائیگی سے نہیں روک سکتا ، اور الیکشن کمیشن پنجاب اور سندھ حکومت کے کسی بھی عذر کو خاطر میں لائے بغیر انتخابی شیڈول جاری کرے مزید اب تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ….،زرہ غور کریں بڑے نامور الیکشن کمیشن کے وکیل جنکی فیس کا سوچ بھی نہیں سکتے ،کہا کہ سپریم کورٹ ہمیں اختیارات دے دے تو ہم شیڈول کا اعلان کر دیں گے … جبکہ آئین نے اختیار پہلے سے دئے ہیں … اس پر جناب جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہمیں ایسا حکم جاری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں آئین الیکشن کمیشن کو انتخابات کرانے کا پورا اختیار دیتا ہے ،اگر آئین پر عمل نہیں کرنا تو اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں … اگر مقامی انتخابات سے کسی کو کوئی تکلیف ہوگی تو وہ عدالت میں آئے اسکی مشکل بھی سنی جائے گی ،
Election Commission
لیکن اب …. اب الیکشن کمیشن کی زمہ داری ہے بلا تاخیر بلداتی الیکشن کے شیڈول کا اعلان کرے ،اور اگر صوبائی حکومتوں کو کوئی پیڑ ہوتی ہے تو ریلیف کے لئے عدالت سے رجوع کرے ،یہ سچ ہے کہ سیاسی حکومتیں نہیں چاہتی کہ نچلی سطح پر عوام کو اقتدار میں شریک کیا جائے ،ہر قسم کی لوٹ مار میں کسی اور کو حصہ دار بنانا نہیں چاہتیں کہ مقامی حکومتوں میں بر وقت عوامی مسائل کے حل ،اور ترقیاتی کام ہونگے تو کل یہی لوگ ہمارے مقابل آئیں گے یہی ان کو گوارا نہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی تاریخ میں اِن نام نہاد جمہوری ادوار میں ایک مرتبہ بھی مقامی سطح کے الیکشن نہیں ہوئے جب اختیار نچلی سطح تک منتقل ہوئے ہوں …..سابق حکومت اپنے پانچ سال پورے کر کے رخصت ہوگئی مگر بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے موجودہ حکومت کو بھی ٢٠ ماہ ہو گئے ہیں ابھی کوئی پروگرام نہیں انتخابات کرائے جائیں یا مزید لٹکا کر پانچ سال پورے کئے جائیں حالات سے تو یہ واضح ہے کہ یہ حکومت بلدیاتی انتخاببات کرانے کے موڈ میں نہیں،
عدالت عظمےٰ کے واضح حکم کے بعد ٤ ،مارچ کی سماعت کے دوران جو شیڈول دیا گیا کے مطابق کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات اسی سال ہونگے جبکہ سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات تین مرحلوں میں ٢٠١٦ میں کرائے جائیں گے جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ ،یہ انتخابات ستمبر ٢٠١٥ میں کرائے جائیں ، نئے شیڈول میں پھر وہی پنجاب اور سندھ میں مرحلہ وار انتخاب کرانے کی بات کی جسے عدالت نے پھر مسترد کر دیا ہے ….. اب پتہ چلے گا کہ قانون سب سے بالا ہے یا کوئی اور ہے جو قانون سے بالاتر ہے ، عدالت تو ایک مجرم کوسزا دیتی ہے اِس حکم پر عمل در آمد کے لئے حکومت ہے اور اگر حکومت ہی مجرم ہو اور اِ س کے خلاف ہی حکم ہو تو کون ہے جو اِس پر عمل در آمد کرائے گا،جس کیس کی سماعت ہو رہی تھی
اُس میں حکمرا ن ہی مجرم ہے ،کہ یہی لیت ولعل سے ڈنگ ٹپا رہے ہیں تو پھر عدالتی حکم کی تعمیل کون کرے گا اور کون عمل کرائے گا ،عدالت چاہتی ہے کے حکم پر عمل کیا جائے مگر حکمران نہیں چاہتے ، اور اس انکار میں الیکشن کمیشن استعمال ہو رہا ہے ، عجب صورت حال ہے ابھی تک تو حکمران قانون کے سامنے ڈٹا ہوأ ہے کہ نہیں مانتا،شائد وہ اپنی سبکی سمجھتا ہے کیا یہ مہذب معاشروں میں ہماری جگ ھنسائی نہیں …. حالانکہ ایسا نہیں کہ ہر مہذب معاشروں میں قانون کا احترام ہی اس کی پہچان ہے، قانون کے احترام ہی میں اُس کی بھلائی اور بہتری ہے