بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ضرور ڈالیں

Municipal Elections

Municipal Elections

تحریر: سید انور محمود
پنجاب اور سندھ کے تیسرے اور آخری مرحلے میں 5 دسمبر کو کراچی شہر میں بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں ہونے والی سرگرمیاں اب اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ کراچی میں 1520 نشستوں کےلیے 5401 امیدواروں میں مقابلہ ہوگا اور 70 لاکھ سے زائد ووٹرزحق رائے دہی استعمال کریں گے۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں تیسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں کراچی کے چھ اضلاع میں پولنگ ہوگی۔

کراچی کے مختلف علاقوں میں جماعت اسلامی، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی ،اے این پی اور ایم کیوایم نے ریلیوں اورکارنرمیٹنگزکا انعقاد کیا۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کیلئےجماعت اسلامی اور تحریک انصاف متحد ہوکر ان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کےسربراہوں سراج الحق اور عمران خان کی قیادت میں28 نومبر کو ایک طویل ریلی نکالی گئی۔لیاری میں پیپلز پارٹی کے زیراہتمام ریلی نکالی گئی جو بغدادی ،کلاکوٹ ،گل محمد لائن،آٹھ چوک ،بکرا پیڑی اور نیا آباد سے ہوتی ہوئی موسی لائن پر اختتام پذیر ہوئی، ریلی میں شریک جیالوں کا جوش وخروش جوبن پر تھا۔عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر شاہی سید نے کورنگی، مہران ٹاون اور بلال کالونی میں الیکشن دفاتر کا افتتاح کیا۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے شہر کےمتعدد مقامات پر کارنر میٹنگز کا انعقاد کیاجس میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ایم کیو ایم نے منگل یکم دسمبر کوشہرکی تمام یوسیزمیں پتنگ میلے کااہتمام کیا ہے۔ مرکزی پروگرام عزیزآبادکےجناح گرائونڈ میں ہوگاجس میں ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی،سی ای سی اراکین، حق پرست اراکین سینیٹ قومی وصوبائی اسمبلی عوام کے ہمراہ ایم کیوایم کے پرچم کے رنگ کی پتنگیں اڑائیں گے۔ کراچی جو دنیا بھر میں امن و امان کے حوالے سے ایک غیر محفوظ شہر کے طور پر پہچانا جاتا ہے لیکن اس وقت یہ بہت ہی خوش آئند بات ہے کہ شہر میں بدامنی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔آپس میں متصادم سیاسی جماعتوں نے شہر بھر میں سیاسی سرگرمیوں کا مظاہرہ کیا، ریلی نکالیں اور مختلف مقامات پر خطابات کئے جس کو مخالف پارٹیوں نے نہ صرف خوشدلی سے قبول کیا بلکہ اس نے بھی اپنی بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا۔

Imran Khan and Siraj ul Haq

Imran Khan and Siraj ul Haq

کراچی میں سیاسی سرگرمی اس وقت عروج پر پہنچی جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق 28 نومبر کوکراچی پہنچے، عمران خان کراچی کے دو روزہ دورے پر کراچی آئے تھے جبکہ سراج الحق اُس رات ہی لاہور چلے گے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کی قیادت میں 28 نومبر کو ایرپورٹ سے مزار قائد تک کےلیے ریلی نکالی گئی لیکن یہ ریلی بعد میں دو حصوں میں بٹ گئی، عمران خان نے ریلی جیل روڈ پر ہی ختم کردی جبکہ سراج الحق نے سفر جاری رکھا اورمزار قائد پر پہنچ کر فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر ریلی کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ کراچی شہر زخم خوردہ ہے، ہم عوام کے دکھ اور درد دور کرنے کے لیے یہاں آئے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ شہر قائد کو قابضین اور مافیا سے نجات دلائیں گے۔ انہوں نے اہلیانِ کراچی سے وعدہ کیا ہے کہ ہمیں بلدیاتی انتخابات میں کامیاب کروائیں تو کراچی سے بوری بندی کی سیاست کا خاتمہ کرکے کراچی کو استنبول کی طرح پرامن اور خوبصورت بنا دیں گے۔ریلی کو ختم کرنے کے دو مختلف فیصلوں سےیہ سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کس قسم کے اتحادی ہیں، ایک اور عجیب بات یہ تھی کہ جو اپنے آپ کو قائد اعظم ثابت کرنا چاہ رہا ہے اُس نے تو ریلی جیل روڈ پر ہی ختم کردی لیکن وہ جو نہ پاکستان کے حامی تھے اور نہ ہی قائد اعظم کے اُس نے ریلی مزار قائد پر پہنچ کر ختم کی اور مزار قائد پرحاضری بھی دی۔ واہ عمران خان واہ، تماری سیاسی ناکامی کی ایک وجہ اس قسم کے غلط سیاسی فیصلے بھی ہیں۔

اتوار 29 نومبر کا پورا دن عمران خان نے کراچی میں انتہائی مصروف گزارا، جہاں انہوں نے لیاری کے ککڑی گراؤنڈ میں کارکنان سے خطاب کیا وہیں، بنارس، نارتھ ناظم آباد، فائیو اسٹار چورنگی، ابوالحسن اصفہانی روڈ پر کارکنان کے اجتماعات سے خظابات کئے۔ لیاری کے ککری گراؤنڈ میں خطاب کے دوران عمران خان نے کہا کہ سیاست دانوں کا مفاد عوام کو لڑانے میں ہے، پاکستان میں ظالم اکٹھے اور مظلوم تقسیم کردیئے گئے ہیں، مجرموں اور قبضہ گروپ نے ملک سنبھال لیا اور باریاں لیں، کرپٹ لوگوں کی یونین بنی ہوئی ہے، ایک پر ہاتھ ڈالیں تو سب اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ عمران خان نے مزید کہا کہ کراچی کبھی روشنیوں کا شہر تھا، لیاری میں گولیوں کی سیاست کی گئی اور اپنے مفاد کے لئے نفرتیں پھیلائی گئیں، وہ نئے کراچی اور نئے لیاری کے لئے عوام کے پاس آئے ہیں، کراچی پاکستان کامعاشی حب ہے،اس کوبچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ کراچی میں خون خرابے کا کھیل ختم کرکے دکھائیں گے۔ کراچی میں عرصہ دراز سے ایک سیاسی جماعت کی اجارہ داری قائم ہے لیکن کراچی کے شہریوں کو پانچ دسمبر کو ترازو اور بلے کو ووٹ دے کر نئی تاریخ رقم کرنی ہے۔کراچی کے اس پورئے دورئے کے دوران عمران خان اُن علاقوں سے دور رہے جو ایم کیو ایم کے گڑھ کہلائے جاتے ہیں۔

کراچی ہو یا ملتان یا پھر لاہور ہو یا اسلام آباد ، غرضیکہ پاکستان میں کسی بھی جگہ تحریک انصاف کا کوئی پروگرام ہو اور اُسکے کارکن بدتمیزی نہ کریں ایسا ہو نہیں سکتا ۔ عمران خان کی کراچی آمد پرتحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے بدتمیزی کے بھرپور مظاہرئے کیے گئے۔ پہلے روز تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مشترکہ ریلی کی کوریج کرنے والی ایکسپریس نیوز کی خاتون رپورٹر کے ساتھ نہ صرف بدتمیزی کی گئی بلکہ کیمرہ بھی توڑ دیا گیا، اس کی وڈیو سوشل میڈیا پر چل رہی ہے جس میں خاتون اینکرنے پی ٹی آئی کے ورکروں پر الزام لگایا ہے کہ پہلے انہوں نے ہمیں اس بات پر گالیاں دیں کہ ہم نے اُن کی گاڑیوں میں رکھے ہوئے ڈنڈوں کی فلم کیوں بنائی، اُ سکے بعد انہوں نے میرا دوپٹہ کھینچا لیکن مجھے دوسرئے ساتھیوں نے بچایا۔ داؤد چورنگی پرتحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے کارکنان سے خطاب کرنا تھا لیکن وہ کارکنان سے خطاب کئے بغیرہی ائیرپورٹ روانہ ہوگئے جس کے بعد کارکنان مشتعل ہوگئے اور انہوں نے نہ صرف تحریک انصاف کے رہنما علی زیدی کی گاڑی کا گھیراؤ کیا بلکہ ایکسپریس نیوز کی ڈی ایس این جی پر دھاوا بول دیا اور شیشے بھی توڑ دیئے تاہم حملے میں ایکسپریس نیوز کا عملہ محفوظ رہا۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ نیا پاکستان بناینگے، نیا پاکستان بنانے سے پہلے اگرعمران خان اپنے ورکروں کو تمیز سکھالیں تب ہی شاید وہ کچھ کرسکیں گے۔

MQM

MQM

بلدیاتی انتخابات کی مہم کیلیے ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی کے علاقوں کورنگی،بیت المکرم گلشن اقبال، سرجانی اور رنچھوڑ لائن میں کارنر میٹنگزکا انعقاد کیا گیا۔ایم کیو ایم کے رہنما ریحان ہاشمی نے نارتھ ناظم آباد میں خطاب میں کہا کہ جس طرح کراچی کے این اے 246 میں ایم کیو ایم نے بڑی فتح حاصل کی اسی طرح کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں بھی ایم کیو ایم کی ہی جیت ہوگی۔ ایم کیو ایم کی جانب سے حیدر عباس رضوی نے حیدری میں جلسے سےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ پورے پاکستان نے بلدیاتی انتخابات میں مائنس عمران فارمولا اپنایا۔انہوں نے کہا کہ آج سارا دن ہی میڈیا کو مصروف رکھا گیا ایک چھوٹی سی ریلی کیلئے جو کہ ملک کی دو ایسی جماعتوں نے ملکر نکالی تھی کہ جن کے ماننے والے، ووٹر، سپورٹرز پورے پاکستان میں سمیٹتے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آج کالعدم تنظیموں اور طالبان اور برصغیر القاعدہ کے سیاسی ونگز کی ایک ریلی تھی۔ انہوں نے کہاکہ محض نعرے لگا کر کراچی والوں کو بیوقوف نہیں بنایاجاسکتا، کراچی پاکستان کا سب سے پڑا لکھا اور باشعور شہر ہے۔

کراچی میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی مشترکہ ریلی پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ کراچی میں جماعت اسلامی کا تحریک انصاف سے اتحاد حیران کن ہے، سراج الحق واضح کریں کہ دائیں بازو کی پارٹی لبرل جماعت کے ساتھ کیسے ہے ۔ سراج الحق کو لبرل پارٹی سے اتحاد مبارک ہو لیکن اپنی نظریاتی اساس واضح کریں ۔ ان کا کہنا تھا کہ جلسے جلوسوں اور ریلیوں میں عوام رہنماؤں کو دیکھنے آجاتے ہیں لیکن ووٹ اسے ہی دیتے ہیں جوعوام کے لئے کام کرے اور کراچی میں عوام ووٹ اسے دیتے ہیں جو عوام کا ساتھ دے۔

ایک دور تھا جب کراچی کو جماعت اسلامی کا شہر کہا جاتا تھا، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کراچی میں اپنی مقبولیت کھوتی چلی گئی اور اب وہ کراچی میں تحریک انصاف کے ساتھ ملکر بلدیاتی انتخابات لڑرہی ہے۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی ملکر کراچی میں اکثریت حاصل کرلینگے اور کیا ایم کیو ایم اپنی ماضی کی روایت کو برقرار رکھ سکے گی؟ اس سوال کا جواب پانچ دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ہی حاصل ہوسکے گا۔کراچی جو گذشتہ 30 سال سے بربادیوں کا شہر بنا ہوا ہے اُسکے باسیوں کو چاہیے کہ پانچ دسمبر 2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں ماضی کے تجربات کی روشنی میں اپنے شہر کے مستقبل کو سنوارنے کا فیصلہ کریں۔ گمراہ کن نعروں، جھوٹے دعوؤں اور وعدوں کو مسترد کرتے ہوئے ان پر بھروسہ کریں جن پر اُنہیں یقین ہو کہ وہ نہ صرف کراچی کے مسائل سے واقف ہیں بلکہ اُن مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بہت سوچ سمجھ کر بلدیاتی انتخابات میں اپنا ووٹ ضرور ڈالیں کیونکہ آپکا ووٹ آپکے شہر کے مسائل کو حل کرنے میں ایک بنیادی کنجی ہے۔

Syed Anwer Mahmood

Syed Anwer Mahmood

تحریر: سید انور محمود