کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) آئینی و انسانی حقوق کے یورپی ادارے ECCHR کے مطابق علی انٹرپرائزز فیکٹری میں آگ لگنے کے بعد دو ملزمان کو سزائے موت دینے کا عدالتی فیصلہ فیکٹری میں آگ سے بچنے کے ناکافی اقدامات کے اہم حقائق کو نظر انداز کرتا ہے۔
جرمن دارالحکومت برلن میں واقع یورپی مرکز برائے آئینی و انسانی حقوق (ای سی سی ایچ آر) کے مطابق پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کا فیصلہ بلدیہ فیکٹری میں آگ سے بچنے کے ناکافی حفاظتی اقدامات کو نظر انداز کر رہا ہے۔ ای سی سی ایچ آر کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سزائے موت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ”پاکستان میں سزائے موت کے بہت سارے فیصلے غیر قانونی ہوتے ہیں جن کو بعد میں اعلیٰ عدالتیں تبدیل کردیتی ہیں، اس کیس میں بھی اس بات کا قوی امکان ہے۔‘‘
کراچی کی ٹیسکٹائل فیکٹری علی انٹرپرائزز میں سن 2012 میں آتشزدگی کے سانحے میں 264 افراد نے اپنی زندگیاں گنوا دی تھیں۔ کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے منگل بائیس ستمبر کو دو ملزمان زبیر عرف چریا اور عبدالرحمان عرف بھولا کو سزائے موت سنائی تھی۔ عدالتی فیصلے کے مطابق گارمنٹس فیکٹری میں آگ حادثاتی طور پر نہیں لگی تھی بلکہ بھتہ نہ ملنے کی وجہ سے جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔
سعیدہ خاتون کا بیٹا بلدیہ فیکٹری میں آگ لگنے کے سانحے میں لقمہء اجل بن گیا تھا۔ اب سعیدہ خاتون علی انٹرپرائز فیکٹری کے متاثرین کے لواحقین کی تنظیم کی نمائندگی کرتی ہیں۔ سعیدہ خاتون کے مطابق یہ فیصلہ نہ تو فیکٹری میں آتشزدگی سے متاثرہ افراد کے لواحقین کی مدد کرتا ہے اور نہ ہی ان تمام فیکٹری ورکرز کی جو آج بھی انتہائی غیر انسانی اور خطرناک حالات میں کام کر رہے ہیں۔ خاتون کے بقول، ”ہمیں یہ جاننے کے لیے ایک مؤثر تفتیش کی ضرورت ہے کہ آٹھ سال پہلے آخر ہوا کیا تھا۔‘‘
ای سی سی ایچ آر کے مطابق پاکستانی عدالت میں مقدمے میں جو ثبوت استعمال کیے گئے وہ متنازعہ ہیں۔ گیارہ ستمبر 2012ء کی شام فیکٹری میں آگ لگنے کے واقعےکو ابتدا میں حادثہ قرار دینے اور اس کی ذمہ داری فیکٹری مالکان پر ڈالنے کی کوشش کی گئی تاہم مالکان کی گرفتاری اور ان کے بیانات کی روشنی میں یہ انکشاف ہوا کہ یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی منظم سازش تھی۔
فیکٹری کے متاثرہ افراد کے لواحقین کے وکیل فیصل صدیقی کے بقول، ”فیکٹری میں آگ لگنے کے واقعے کو سیاسی مخالفین کے خلاف شو ٹرائل کے طور پر استعمال کیا گیا اور فیکٹری میں آگ سے بچنے کے ناکافی اقدامات کے حوالے سے کچھ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ڈھائی سو سے زائد افراد ہلاک ہوگئے اور اس سے کہیں زیادہ لوگ زندگی بھر کے لیے سانحے کے نتائج بھگتنے پر مجبور ہوگئے۔‘‘
آئینی و انسانی حقوق کے یورپی مرکز میں بزنس اور ہیومن رائٹز پروگرام کی سربراہ مریام زاگ ماس نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے بعد ایسی صورتحال پیدا نہ ہوجائے کہ آگ سے بچنے کے ناقص انتظامات کے لیے کسی کو جواب نہ دینا پڑے۔ ماس کے بقول، ”آگ جان بوجھ کر لگانے کی صورت میں بھی حفاظتی اقدامات لازمی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ الارم سسٹم کی عدم موجودگی، کھڑکیوں اور روشن دانوں پر لوہے کی گرل نصب ہونے کی وجہ سے ہنگامی حالت میں فیکٹری سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔
سن 2018 میں لندن یونیورسٹی کی تحقیقاتی ایجنسی ‘فارنزک آرکیٹیکچر‘ کے فائر سائنس اور کراؤڈ سمیولیشن کے ماہرین نے سانحہ بلدیاتی فیکٹری کی ایک ٹیکنیکل رپورٹ میں تصاویر اور آتشزدگی سے زندہ بچ جانے والے شاہدین کے بیانات پر مبنی ایک تجزیاتی ویڈیو جاری کی تھی۔ اس ویڈیو میں فیکٹری کی عمارت کے ڈیزائن اور انتظامیہ کی وسیع ناکامیوں کا ثبوت دیا گیا۔ ای سی سی ایچ آر کے اشتراک سے تیار کردہ اس رپورٹ کا مقصد متاثرہ افراد کے لواحقین کو قانونی کارروائی میں مدد فراہم کرنا تھا۔
فرانزک آرکیٹیکچر کے محقق نیکولاس ماسٹرٹن کے مطابق ان کی تجزیاتی رپورٹ ایسی معلومات کی بنیاد پر تیار کی گئی جو پاکستانی عدالت میں بھی پیش کی گئی تھی۔ ان کے بقول، ”ہماری رپورٹ میں علی انٹرپرائزز فیکٹری کی عمارت میں آگ سے بچنے کے حفاظتی نظام میں اہم اور منظم خرابیاں دیکھی جا سکتی ہیں، جیسے کہ فائر الارم ، آگ بجھانے کے سامان کی عدم موجودگی، عمارت میں بہت زیادہ لوگوں کی موجودگی ۔‘‘ ماسٹرٹن کے مطابق یہ تمام حقائق انتظامیہ کے فیصلوں اور فیکٹری کے مرکزی کسٹمر یا گاہک کی عدم توجہی اور اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکامی ثابت کرتے ہیں۔ ان کے بقول، ”آگ لگنے کی وجہ سے قطعہ نظر، آگ بھڑکنے اور ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے میں ان حقائق نے بلاشبہ اہم کردار کیا۔‘‘
واضح رہے جرمن ٹیکسٹائل ڈسکاؤنٹر ‘کِک‘ (KIK) لی انٹرپرائز کی فیکٹری کے مرکزی گاہک تھا۔ ای سی سی ایچ آر کی مریام زاگ ماس کے مطابق آتش زدگی کے سانحے کا شکار ہونے والی اس فیکٹری علی انٹرپرائزز کو سب سے بڑا ٹھیکا دینے والی جرمن ٹیکسٹائل ڈسکاؤنٹر کِک KIK کے پاس اس فیکٹری میں کام کرنے کے حالات کو بہتر بنانے کا موقع تھا۔
قبل ازیں سعیدہ اور اس سانحے کے دیگر پاکستانی متاثرین جرمنی میں جرمن ٹیکسٹائل ڈسکاؤنٹر KiK کے خلاف مقدمہ دائر کرنا چاہتے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کِک فی خاندان تیس ہزار یورو ادا کرے۔ تاہم جرمن عدالت نے گزشتہ برس بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آتش زدگی سے متاثرہ افراد کی جانب سے ہرجانے کے دعویٰ یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ پاکستانی قانون کے تحت اس واقعے کے بعد ہرجانے کے دعوے کے لیے طے شدہ وقت گزر چکا ہے۔
جرمن کاروباری ادارے کِک کے مطابق پاکستان کے اس بدترین صنعتی سانحے کے بعد وہ متاثرین اور ان کے اہل خانہ کو رضاکارانہ طور پر 5.26 ملین یورو کی ادائیگی کر چکے ہیں۔