اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے بلدیاتی الیکشن کے عدم انعقاد کا ایک بار پھر نوٹس لیتے ہوئے کہا بلدیاتی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے آئین بے معنی اور پولیس آرڈر مجریہ 2002 ء غیر موثر ہو چکا ہے۔
پولیس کی ایذا رسانی اور ایف آئی آر درج نہ کرنے کی شکایات کے بارے میں مقدمے میں عدالت نے آبزرویشن دی پولیس کے ظلم کا شکار افراد کی شکایات کا ازالہ نہ ہونے کی وجہ سے نظام پر لوگوں کا اعتماد اٹھ رہا ہے اور نا امیدی بڑھتی جا رہی ہے جس کا نتیجہ معاشرے میں تشددکی شکل میں نکل رہا ہے۔
فل بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا پولیس کے خلاف شکایات پرکارروائی کیلئے پولیس آرڈر میں پبلک سیفٹی کمیشن بنایا گیا لیکن یہ کمیشن نو سال سے غیر فعال ہے کیونکہ کمیشن میں منتخب کونسلوں کے ارکان شامل ہوتے ہیں اور نو سال سے ملک میں بلدیاتی الیکشن ہی نہیں ہوئے،آئین کے آرٹیکل 240 اے کے تحت حکومت بلدیاتی الیکشن کرانے کی پابند ہے لیکن نو سال سے آئین کی خلاف ورزی ہورہی ہے، پانچ سال سے سپریم کورٹ بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کیلیے ہدایات پر ہدایات دی رہی ہے لیکن عمل نہیں ہورہا،آئین اور سپریم کورٹ کے حکم کو نہ ماننے کا مطلب یہ ہوا کہ آئین بے معنی ہو چکا ہے۔
عدالت نے چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل کو ہدایت کی کہ وہ عدالتی معاون خواجہ حارث کے ساتھ مل کر پولیس کی ایزا رسانی کا شکار افرادکے ازالے کے لئے طریقہ کار وضع کرنے اور ایف آئی آرکے اندراج، تفتیش و چالان پیش کرنے کی موثر نگرانی کیلیے سفارشات اور تجاویز کی ایک جامع رپورٹ دیں۔
جسٹس جواد نے کہا 1860ء سے جو پولیس سسٹم نافذ ہے اس میں عوام کو پولیس کے ظلم سے بچانے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ریاست کے ظلم سے تحفظ دے۔لوگوں کیخلاف جھوٹے مقدمے درج کرنے کے خلاف ہمارا قانون ویسے ہی بہت ناقص ہے، آج تک کسی پولیس اہلکار کو جھوٹے مقدمات درج کرنے میں سزا نہیں ہوئی۔ فاضل بینچ نے پتوکی میں ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام پرفراڈکرنے کے اصل ملزم محمد امین کو گرفتارکرنے کا حکم دیا ہے۔