بلدیاتی اداروں کا ماضی، حال، مستقبل

Municipal Elections

Municipal Elections

تحریر : ایم سرور صدیقی

موجودہ حکومت نے نئے بلدیاتی نظام کے حق میں زمین آسمان کے قلابے ملا دئیے ہیں لیکن اپوزیشن کو اس بارے بہت سے تخفظات ہیں کمال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن جس نے عدالت ِ عظمیٰ کے پریشر میں بلدیاتی انتخابات تو کروا دئیے لیکن ان اداروں اور منتخب عوامی نمائندوںکو کوئی اختیارنہیں دیا تین چارسال چیئرمین ،وائس چیئرمین اور ہزاروں کونسلر اختیارات کیلئے مارے مارے پھرتے رہے کبھی اجلاس،کبھی احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا لیکن اپنے آپ کو جمہوریت کے چمپین کہلانے والے میاںشہبازشریف کو بھی ترس نہ آیا اور منتخب عوامی نمائندے اختیارات کو ترستے رہے وہ بھی نمبرگیم کیلئے بلدیاتی اداروںکے حق میں بیانات داغتے رہے اس سے بڑی شاید منافقت کی کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی بہرحال وزیر ِ اعظم عمران خان کا کہناہے کہ نیا بلدیاتی نظام قبائلیوں کے رہن سہن اور روایات سے تصادم نہیں ہوگا کوشش ہے نظام سے قبائلی روایات اور طرز زندگی زیادہ متاثر نہ ہو قبائلیوں کے مسائل قبائلی عوام کی مشاورت سے حل کریں گے قبائلی عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران قربانیاں دیں۔ پی ٹی آئی نے پہلی دفعہ ویلیج کونسل کا نظام خیبر پی کے میں شروع کیا تھا پنجاب میں بھی ویلیج سسٹم لا رہے ہیں فنڈز براہ راست عوام کے پاس جائیں گے۔

قبائلی اضلاع کو ختم کرنا آسان کام نہیں تھا۔ قبائلی علاقوں کی سیٹیں بڑھ جائیں گی وفاقی اور صوبائی اسمبلی میں نمائندگی ملے گی قبائلی علاقوں میں پرانے نظام کی وجہ سے امن تھا اور جرائم کی شرح بہت کم تھی بلدیاتی نظام کے ذریعے ہر گائوں اپنے فیصلے خود کرے گا۔ صوبائی حکومت کی جانب سے ہر گائوں کو براہ راست فنڈز ملیں گے نیا بلدیاتی نظام بھی قبائلیوں کے پرانے نظام سے ملتا جلتا ہے قبائلی عوام بہت مشکل میں تھے ڈرون کی پروازیں ہو رہی تھیں مشکل حالات میں قبائلی عوام کیلئے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔نئے بلدیاتی نظام کا بل منظور کرنے پر اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا تھا کہ عوام کے منتخب نمائندوںکو ہٹانا جمہوریت کی توہین ہے موجودہ حکومت نے تو وعدہ کیا تھا کہ وہ بلدیاتی اداروںکو فعال، متحر ک اورمضبوط بنائے گی لیکن بلدیاتی اداروںکو ختم کرنا بنیادی جمہوریت کا گلہ گھوٹنے کے مترادف ہوگا۔تاریخی لحاظ سے فیلڈمارشل صدرایوب خان نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1959ء کے تحت 1962ء میں 44ہزار کونسلروںپر مشتمل بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کروایا جس کے تحت بلدیاتی انتخابات کروائے گئے اس دور میں بھی یونین کونسل سطح پر اس کی ڈویژن کی گئی تھی۔

اس دور میں صدر ِ پاکستان کا انتخاب بی ڈی ممبر ہی کرتے تھے جس کے نتیجہ میں صدارت کیلئے صدر ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوا شنیدہے کہ صدر ایوب خان کو محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلہ میں برتری حاصل نہ تھی چونکہبلدیاتی عوامی نمائندے افسرشاہی کے ماتحت تھے اس لئے ڈپٹیکمشنرزنے اپنا اثرورسوخ دکھایا اور عوامی مقبولیت کی حامل محترمہ فاطمہ جناح کو کامیاب نہ ہونے دیا ایوب خان صدر تو بن گئے لیکن ان کا بلدیاتی بی ڈی ممبر سسٹم ان کے جاتے ہی ختم ہوگیا۔ جب جنرل (ر)ضیاء الحق نے ذوالفقارعلی بھٹوکی حکومت کا تختہ الٹ کر77ء میں مارشل لگایا تو انہوںنے 1979ء میں لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے تحت بلدیاتی نظام رائج کیا یہی وہ سنہرا دور ہے جب بلدیاتی ادارے مضبوط اور مستحکم ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے دور ِ حکومت میں دوبار بلدیاتی انتخابات کروائے اس کے بعد 90ء اور 98ء میں بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے اس وقت پنجاب کے بڑے بڑے سیاستدان پنجاب بلدیاتی اداروں کی پیداوار ہیں جن میں چوہدری پرویزالہی،شاہ محمودقریشی، غلام حیدروائیں جیسی شخصیات شامل ہیں۔ 12اکتوبر 1999ء میں جنرل(ر)پرویز مشرف نے نوازشریف حکومت کو چلتا کرکے مارشل لاء لگایا۔

انہوں نے 2001ء میں نیا لوکل باڈیزسسٹم رائج کیا اسے مقامی حکومتوںکا نام دیا گیا جس میں ہر یونین کونسل مکمل بااختیار تھی جس میںنچلی سطح پرعوامی نمائندوں کوبااختیار بنایا گیا تھا ناظم اور نائب ناظم کو ایک مربوط سسٹم کے تحت براہ ِ راست فنڈز ملتے تھے اس دور میں پاکستان میں سی سے زیادہ ترقیاتی کام ہوئے اس نظام کا بغور جائزہ لیاجائے توپرویز مشرف کے اس بلدیاتی نظام کو پاکستان کا سب سے بہتر نظام قراردیا جاسکتا ہے،جس کے تحت غیرجماعتی بنیاد پرناظم ،نائب ناظم یونین کونسل کے براہ راست انتخابات کروائے گئے اور ناظم ،نائب ناظم تحصیل، اور ضلعی ناظم اور نائب ناظم کو بالواسطہ منتخب کروایا گیا،ان منتخب عوامی نمائندوں کے ماتحت سرکاری ایڈمنسٹریشن جس میں یونین انتظامیہ ، تحصیل میونسپل آفیسر اور ڈی سی اوزکو رکھا گیا تھا پھر جب مسلم لیگ ن کی حکومت آئی توانہوں اس بلدیاتی نظام کو ڈکٹیٹرکا نظام قراردے کرختم کردیا اور اس کی جگہ پنجاب حکومت نے لوکل باڈیز ایکٹ 2013ء جاری کیا، جس میں ناظمین کی جگہ چیئرمین متعارف کروائے گئے،ڈی سی اوز کی جگہ کمشنرز،ڈپٹی کمشنرلگائے دیئے گئے بنیادی طور پر یہ بلدیاتی نظام پرویزمشرف کے بلدیاتی سسٹم سے ہی مستعارلیا گیا تھا قباحت یہ ہوئی کہ مسلم لیگ ن نے جمہوریت جمہوریت کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہوئیبلدیاتی نمائندوں کواختیارات بھی منتقل نہیں کئے بلکہ ترقیاتی فنڈز بھی ارکان اسمبلی کے ہاتھ میں دئیے گئے۔

پرویز مشرف نے ناظمین کیلئے تعلیمی اہلیت میٹرک رکھی تھی اب تحریک انصاف کی پنجاب حکومت نے خیبرپختونخواہ کو کاپی کرتے ہوئے لوکل گونمنٹ ایکٹ 2019ء رائج کردیا ہے جس میں تعلیم کی شرط ختم کردی گئی ہے اس کی اہم خوبی یہ ہے کہ یہ موضع کی بنیادپر ترتیب دیا گیا ہے یعنی عوامی مسائل گھرکی دہلیزپر ہی حل ہو سکیں گے پنجاب نئے بلدیاتی نظام کے تحت شہروں میں میونسپل اور محلہ کونسل جب کہ دیہات میں تحصیل اور ویلج کونسل ہوگی۔ گورنر پنجاب چوہدری سرور کا کہنا ہے کہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کا وعدہ پورا کررہے ہیں، وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق عوام کو مضبوط کررہے ہیں، نئے بلدیاتی نظام میں مقامی سطح پر عوامی نمائندے صحیح معنوں میں بااختیار ہوں گے۔ گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ عوامی سطح پر پائیدار سروس ڈیلیوری کو یقینی بنانا تحریک انصاف کے منشور کا سب اہم جزو ہے۔ ق لیگ نے بلدیاتی بل پر تحفظات کے حوالے سے حکومت کو آگاہ کردیا۔مسلم لیگ (ق) کی جانب سے حکومت پنجاب کی کسی کمیٹی میں نمائندگی نہ ملنے کے باوجود بلدیاتی بل کی حمایت کے حقائق سامنے آ گئے۔

نجی ٹی وی کے مطابق بلدیاتی بل کے لیے حکومت پنجاب کی کسی کمیٹی میں مسلم لیگ (ق) کو نمائندگی نہیں دی گئی اور نہ ہی ان سے مشاورت کی گئی لیکن اس کے باوجود (ق) لیگ نے بل کی حمایت کی جس کے حقائق اب سامنے آگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ق) کے مرکزی سیکٹری جنرل طارق بشیر چیمہ، چوہدری مونس الٰہی اور کامل علی آغا نے پارٹی اجلاس میں بل کی شدید مخالفت کی اور اس کے علاوہ (ق) لیگ کی بڑی تعداد میں رہنما بلدیاتی بل کے خلاف تھی لیکن پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی قیادت کو بل کی حمایت پر آمادہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم اتحادی ہیں ہمیں یہ بل منظور کروانا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ق) نے بل پاس ہونے کے بعد اپنے تحفظات سے حکومت کو آگاہ کردیا ہے اور کہا ہے کہ بل منظور ہونے سے پہلے اس لیے خاموشی اختیار کی تاکہ بلیک میلنگ کا الزام نہ لگے بہرحال پی ٹی آئی کا بلدیاتی نظام کیساہوگا؟ عوامی مسائل کے حل کیلئے کیا حکمت ِ عملی ہوگی؟سب سے بڑھ کر بنیادی جمہوریت کے حامل عوامی نمائندے کس حد تک بااختیارہوںگے اس کا فیصلہ وقت کرے گافی الحال تو اپوزیشن جماعتیں اس کی مخالفت زور و شور سے کررہی ہیں لیکن وزیر ِ اعظم سے لے کروزیر مشیر اور حکومتی ارکان مسلسل کہہ رہے ہیں کہ نیا بلدیاتی نظام جو پی ٹی آئی نے نافذکیاہے آج تک اس سے بہترکوئی سسٹم نہیں لایاجا سکا درجنوں ادارے اور محکمے اس کے انڈرہوںگے تو عوام کے مسائل ان کی دہلیزپر حل ہوں گے۔

M Sarwar Siddiqui

M Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی