تحریر : اقبال کھوکھر چند دن قبل ہم نے یوم آزادی پاکستان ( 14 اگست (منایا۔ تقریبات، ریلیوں، جلسوں ،جلوسوں و مختلف پروگرامز کے انعقاد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہم آزاد وطن میں آزاد قوم ہیں مگرایک محب وطن شہری ہونے کی حیثیت سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا ہم آزاد ہیں؟ کیا ہمارا وطن آزاد ہے؟بہت سارے دوستوں کے ساتھ اس پہلوپربات چیت کرنے کے بعد میرے یقین کو تقویت ملی کہ ہم ابھی تک نہ ہی آزاد ہیں اور نہ ہی آزادی کے ثمرات سے مستفید ہیں۔کیونکہ اہل دانش کہتے ہیں کہ آزادی کا مطلب ہے اپنی مرضی ورضا سے کسی عمل وعہد کا حصہ بننا۔لیکن پاکستان جغرافیائی طور پرآزاد ضرور ہے مگر شہریوں کے دل ودماغ آج بھی غلام ہیں مختلف عالمی اداروں،شخصیات وگروہوں کے اور ان کے مقاصد کے۔پھرریاست کے بااثر طبقات نے بھی غریب اور پسماندہ طبقات کو اپنا غلام بناکر انہیں مایوسیوں ومحرومیوں سے دوچار کررکھا ہے۔
پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کوگزشتہ69سالوں سے ہی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی بے وقت کی وفات سے ہی مسائل ومصائب کا سامنا شروع ہوگیا تھا مگر گزشتہ تین دہائیوں سے جس طرح عموماً اقلیتوں اور بالخصوص مسیحیوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ پریشان وقدرے تشویش ناک ہی نہیں ،آئین پاکستان ونظریہ پاکستان کے بھی منافی عمل ہے جس سے صرف مسیحی ہی نہیں بلکہ ہرحساس وذی شعور پاکستانی مغموم ہے۔اقلیتوں کی تحریک پاکستان سے قیام پاکستان کے لئے تاریخی بے پناہ قربانیوں اورتشکیل پاکستان سے تعمیرپاکستان کے لئے بے مثال خدمات کو یکسرفراموش کرکے ریاستی حقوق شہریت سے بھی محروم کرنے کی مذموم سازشیں کی گئیںاور بہت سوں سے معذرت کے ساتھ برابر کے شہری ہونے کا دعویٰ ایک خوش فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں۔علاقائی،تعصباتی وگروہی استحصال کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر بھی نظرانداز کیا جاتا ہے گو کہ بہت سارے لوگ اقلیتوں کے دکھوں میں شریک ومداوا بننے کی کوشش کرتے ہیں مگرایک مخصوص طبقہ اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی،زیادتی کو اپناحق سمجھتا ہے۔
یہ سلسلہ دراز اورمضبوط کرنے میں حکومتی پالیسیاں بھی کلیدی کرداراداکررہی ہیں۔پہلے قومی وصوبائی سطح پر جداگانہ پھر غیر حقیقی ،غیرفطری،غیرجمہوری اورغیرآئینی طریقہ انتخابات (سلیکشن) کے ذریعے اقلیتوں کو قومی دھارے سے خارج کرکے سیاسی طور پر کمزور وغیرفعال کیا گیااور عوام کے مسائل سے ناآشنا اور سیاست میں اقتدار کے رسیا لوگ اقلیتوں پر مسلط کرنے کا رواج قانون بنایا گیا۔اب بلدیاتی انتخابات کانیا قانون جو گورنر پنجاب کے دستخطوں سے جاری کیا گیا ہے اس میں بھی اقلیتوں کو براہ راست اپنے نمائندے خودمنتخب کرنے کے بنیادی حق سے محروم کردیا گیاہے۔ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ پنجاب کے تمام نامزدیے ممبران اسمبلی نے اس بل کی حمایت ہی نہیں بلکہ اسے اپنی حکومت کا کارنامہ گنوانے میں پوائنٹ سکورنگ کررہے ہیں۔سب اچھا کی مخدوش صورتحال کو ختم کرنے کے لئے بزرعگ سیاسی رہنماء ایم اے جوزف فرانسس نے بلدیاتی انتخابات میں اقلیتوں سمیت خواتین کوالیکشن کی بجائے سلیکشن کولاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن کے ذریعے چیلنج کرتے ہوئے فوری ختم کرنے کی استدعا کی ہے جس کا فیصلہ کیا ہوتا ہے وہ عدالتی عمل ہے جس پر قبل ازیں کہنا مناسب نہیں۔
Law
اس حوالے سے ایک بات یہ بھی علم میں آئی ہے کہ اس قانون کے حوالے سے اقلیتی حلقوں کے تحفظات وخدشات دور کرنے کے حوالے سے حکومتی سطح پرتین اقلیتی ممبران اسمبلی پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے کا عمل شروع ہوا توایک ممبراسمبلی نے اپنے آقائوں کو خوش کرنے کی غرض سے اسے غیرضروری قراردے کر کمیٹی کاحصہ بننے سے ہی انکارکردیا اس طرح بالواسطہ اقلیتوں کے حقوق کی نفی کی گئی ویسے اقلیتی باشعور حلقے تو پہلے ہی موجودہ سسٹم سے کوئی زیادہ توقعات نہیں رکھتے۔اقلیتی نامزدیوں کا طرزسیاست ایک طرف تودوسری پاکستان عوامی تحریک نے اس نظام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے جس میں وزارت قانون ،الیکشن کمیشن ودیگر اتھارٹیز کو عدالت نے طلب بھی کرلیا ہے۔
حقیقت میں بلدیاتی نظام عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے قائم کیا گیاتھا کہ عوام مقامی سطح پر سہولت کے ساتھ آسانی سے انصاف حاصل کرسکیں مگر اس ”سہولت کاری” نے اقلیتوں کوایک بار پھر یہ احساس سے دوچار اور تقسیم کردیا ہے۔بلدیاتی نظام کے حوالے سے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میںایک اور تشویش ناک صورتحال پیدا کردی گئی ہے کہ بڑی مسیحی آبادیوں کوٹ لکھپت، یوحناآباد، ناط کالونی وغیرہ میں نئی حلقہ بندیوں کو اس طرح مرتب کیا گیا ہے کہ مسیحی آبادیوں کے ووٹرز تقسیم کردیے گئے ہیں ،جہاں جہاں بھی اقلیتی امیدواران کے براہ راست منتخب ہونے کے امکانات ہیں وہاں مسیحی ووٹرزکم اور مسلم ووٹرز زیادہ کرکے اس طرح حلقہ بندیاں کی گئی ہیں کہ کسی بھی طرح مسیحی (اقلیتی) نمائندے براہ راست منتخب نہ ہوسکیں۔اس بارے میں بھی قانونی دروازے کھٹکھٹائے جارہے ہیںلیکن انصاف گھر سے شروع ہونے سے ہی حقوق تک رسائی ممکن ہوتی ہے اقلیتی نمائندوں کی خاموشی مجرمانہ فعل ہے جسے شائد تاریخ معاف نہیں کرے گی۔
تمام مذکورہ بالا صورتحال کے تناظر میں گزارش کرنا چاہتا ہوں تمام ارباب اعلیٰ سے کہ خدارااقلیتوں کو قومی دھارے سے نکال کر آپ پہلے ہی قائداعظمکے وعدوں اور آئین پاکستان کے منافی جاچکے ہیں اب اقلیتوں کو مقامی سطح پر اپنے بنیادی آئینی حق سے تو محروم نہ کریں۔اقلیتوں کو آزاد مرضی سے اپنے نمائندے منتخب کرنے کاحق دے دیں۔قانون لوگوں کے مفادات کے لئے بنائے جاتے ہیں نہ کہ ان سے جینے کا حق چھیننے کے لئے۔اقلیتوں کو آزادمرضی دے کر ہی مہذب معاشرے وآزادریاست کا خواب پورا کیا جاسکتا ہے۔