تحریر: اقبال زرقاش زمین شدت تپش سے مغلوب ہوکر پیاسی ہوتی ہے تو آسمان سے موسلا دھار بارش ہوتی ہے ۔تاریکی شب کی چادر بسیط ہوتی ہے تو صبح کا اجالا پھوٹ پڑتا ہے بندگان خدا میں جب گمراہی پھیلتی ہے اور نافرمانی عام ہوتی ہے تو رب کریم کی رحمت بے پایاں متوجہ ہوتی ہے اور خدا وند قدوس اپنے خاص بندوں میں سے کسی نہ کسی کو پیکر رشد و ھدایت بنا کر بھیجتا ہے اس ہی لے خاکران گیتی میں وقتا فوقتا انبیا ء و رسل کا مقدس قافلہ آتا رہا جو انسانوں کو نافرمانیوں اور گمراہیوں کے گھٹاٹوپ اندھیرں سے نکال کر نہ صرف معراج انسانیت عطا کرتے رہے بلکہ خدمت انسانیت اور درد انسانیت کی اعلی مثال بن کر مشغلہ راہ قرار پائے۔ سلسلہ نبوت جب خاتم الانبیاء کی ذات پر ختم ہوا تو اس کام کا سہرا صحابہ کرام و الاولیاء امت نے اپنے سر بندھے اپنی اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے آرہے ہیںاس قوم کی ضروریات کی دو اقسام ہیں 1دینی اور دوسری دنیاوی دینی ضروریات کیلئے صحابہ کرام کے بعد اولیاء کرام و علماء راسخین کا سلسلہ جاری فرمایا اور جب دنیاوی ضروریات پڑی تو اس کیلئے اپنے بندوں میں سے کسی بندے کے دل میں اپنی مخلوق کی خدمات و ہمدردی ڈال کر خدمت خلق کا بیڑا اس کے سپرد کر دیا ۔وہ کبھی ٹیپو سلطان اور کبھی سلطان صلاح الدین ایوبی ،محمود غزنوی اور عصر خاصر میں عبدالستار ایدھی کی صورت میں ابھرتے رہے۔کسی صاحب کمال کے کمالات کا اعتراف جب دوستوں کے علاوہ دشمنوں کی محفلوں میں بھی کیا جانے لگے تو اس صاحب کمال کی عظمتوں کا سب سے بہتر ثبوت ہوتا ہے۔
انھیں صاحبان درد اور خدمت انسانیت کے عظیم معمار اشخاص میں دور حاضر کی ایک معروف شخصیت منیر احمد کے نام سے موسوم ہے ۔جنھوں نے 30 جولائی 1980 میں ضلع اٹک کے نواحی اور انتہائی پسماندہ گائوں فقیر آباد میں آنکھ کھولی ۔انھیں اللہ تعالی نے دور طفلی میں صاحب درد اور خدمت انسانیت کے جذبہ سے سرشار فرمایا۔تعلیم سے فراغت کے بعد فن مصوری سے عظیم استادوں کی زیر نگرانی منسلک ہو گئے ۔مگر جسکو خدا اپنی مخلوق کیلئے چن لے وہ کسی ایک جگہ سکون سے بیٹھ کر قرار نہیں پکڑتا ۔منیر احمد نے خدمت خلق کا کام اس وقت شروع کیا جب اپنے گائوں کے غریب اور بے سہارہ لوگوں کو وڈیروں اور نام نہاد سماجی کارکنوں کے دروازوں پر دھکے کھاتے ہوئے دیکھا ۔یہ حالت زار دیکھتے ہوئے برداشت نہ کر سکے اور اپنے کام کی ابتدا ایک محلے کی چھوٹی سی کمیٹی سے کی جس کا نام الفلاح کمیٹی رکھا مگر اللہ نے ان سے بڑا کام لینا تھا اس لیے جیسے جیسے وقت گزرتا گیا تو راستے ہموار ہوتے گیئے بقال شاعر۔گھر سے نکلے تھے تو تنہا تھے لوگ ملتے گئے اور کاروان بنتا گیا۔
آخر کار اپنی قابلیت کے بل بوتے پر آواز یونین کونسل فورم کے صدر منتخب ہوگئے اکثر کہا جاتا ہے کہ پہلوان کو میدان کی ضرورت ہوتی ہے اور کارکن کو پلیٹ فارم کی ضرورت ہوتی ہے جب کسی مخلص آدمی کو اچھا پلیٹ فارم مل جائے تو پھر اس کیلیء مشکالات آسان ہو جاتی ہیں اسی طرح جب منیر احمد جیسے مخلص آدمی کو ایک بہترین پلیٹ فارم میسر آیا تو انھوں نے ایسے ایسے کارنامے دیکھائے کہ بڑے بڑے سیاسی و سماجی کارکن انگشت دندان دیکھتے رہ گئے وہ کام کیلئے جنکے کرنے کے سیاسی وعہدوں کے شعلے کئی سالوں سے بجھ چکے تھے چند سالوں میں کر دئیے اگر اس جوان کی کارکردگی تحریر میں کلی طور پر لائی جائے توکئی جلدوں پر مشتمل ایک کتاب بن سکتی ہے مگر سطور کو پیش نظر رکھتے ہوئے صرف چند ایک کام زیر تحریر لانا ضروری سمجھتا ہوں جن سے اس نوجوان کی صلاحیت اور درد انسانیت کا ثبوت ملتا ہے اس ساری تحریر کا مقصد یہ ہے کہ شاہد کسی اور نوجوان کے اندر بھی یہی جذبہ پیدا ہو جائے ۔آواز یونین کونسل گولڑہ کے دفتر میں ایک دن اتفاقا حاضری کا موقع ملا تو دفتر کے اندر تمام ریکارڈ اور کارکردگی کی تصویروں کو دیکھ کر عقل دنگ رہ گئی سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ پوری یونین کونسل گولڑہ کے تمام معذور ،اور غریب لوگوں کے علاوہ تمام بیوہ خواتین کا ریکارڈ موجود تھا۔اور ریکارڈ بھی اس کمال کا جس میں نام ،ولدیت ،شناختی کارڈ کی کاپی ،ایڈریس اور فون نمبر کے ساتھ ساتھ ہر بندے کی تصویر موجود تھی ۔منیر احمد سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آپ نے جب اتنی محنت کر کے ریکارڈ تیار کیا ہے تو کیا کسی ادراے نے ان کی مدد بھی کی ہے تو منیر احمد نے بڑے دردبھرے لہجے میں کہا کہ میں ان معذور بھائیوں اور بیوہ خواتین کیلئے کشکول لے کر ہر دررازہ کھٹکاتا رہا مگر اس وقت تک صرف یونین کونسل گولڑہ میں 35معذور افراد کو معذوری سرٹیفیکیٹ بنوا کر دئیے اور ان میں سے 30معذور افراد کو ویل چئیرز فراہم کیں مزید ہم اعلی حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ ان کیلئے باقائدہ خدمت کارڈ فراہم کیئے جائیں اگر کوئی این جی اوز یا مخیر حضرات ان معذورں کیلئے خدمت کرنا چائیں تو ان کو ویلکم کہیں گے۔
Clean Water Filter Plant
منیر احمد نے اپنی چند سالہ کارکردگی بتاتے ہوئے ایک بار پھر حیرت میں ڈال دیا کہ ڈھوک نواز آباد کے لوگ جو پانی کی بوند بوند کو ترس رہئے تھے اور اپنی پیاس بجھانے کیلئے ساتھ لارنس پور مل والوں سے پانی کی خیرات مانگتے تھے اتنا اہم مسلہ جو سیاسی وعدوں کی بیھنٹ چڑہا ہوا تھا آواز فورم کے پلیٹ فورم سے واٹر سپلائی کی سکیم کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے 30 لاکھ کی گرانٹ پنجاب گورنمنٹ سے منظور کروا کر باقائدہ طور پر ٹیوب ویل لگوایا اور آج ہر گھر میں صاف پانی موجود ہے۔
اسی طرح ڈھوک کرم خان جو کہ سابقہ 11 سالوں سے پانی جیسی اہم نعمت سے محروم تھا 15سو فٹ پانی کی پائپ لائن کی منظوری کرا کر ان غریب عوام کا درینہ مسلہ حل کروایاگونمنٹ پنجاب کی پالیسی پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب کی تحت ڈسٹرکٹ لٹریسی آفیسر اٹک سہیل احمد کی خدمات حاصل کر کے یونین کونسل گولڑہ میں 10لٹریسی نان فارمل سکول منظور کروائے جن میں تقریبا 1ہزار بچہ فری تعلیم حاصل کر رہا ہے سکولوں سے نہ صرف بچوں کو فائدہ ہوا بلکہ وہ خواتین جو پڑھ لکھ کر بے روزگار گھر میں بیٹھی تھیں 20ٹیچر کو روزگار مل گیا ہے جو ان سکولوں میں بچوں کو پڑھا رہی ہیں 4سو سے زائد بچوں کو یونیفارم دیا گیا ہے اپنی مدد آپ کے تحت فقیر آباد میں ووکیشنل سنٹر کا قیام قیام عمل لایا گیا ہے جس میں 90بچیاں کورس مکمل کر کے گھروں میں بیٹھ کر سلائی کڑھائی کا کام کر کے اپنے اخراجات پورے کر رہی ہیں ۔منیر احمد نے کہا میدان کوئی بھی ہو جس میں فلاح انسانیت کا پہلو موجود ہو ہم نے اپنے نفع نقصان کو پس پشت ڈال کر دوڑ لگا دی ہے ۔کہا کہ ہم نے لوگوںکی نالیاں صاف کیں کوڑا کرکٹ کی تلفی اور ڈینگی مہم میں بھر پور کردار ادا کیا۔
محکمہ ایجوکیشن سے رابطہ کر کے سکولوں میں اساتذہ کی کمی کو پورا کیا گولڑہ ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر کی تقرری کو یقینی بنایا اب جس گاڑی کا ڈرائیور ہی نہ ہو وہ منزل تک کیسے پہنچے گی اس ہی طرح جس سکول کا ہیڈ ماسٹر ہی نہ ہو اس کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے ماہ مقدس رمضان شریف کے آخری عشرے میں معذور اور بیوہ خواتین میں راشن تقسیم کیا گیا الغرص درجنوں کام ان کے علاوہ جن کا ریکارڈ دفتر میں موجود تھا مگر تحریر میں نہیں لایا جا رہا منیر احمد ایک درد دل رکھنے والا انسان ہے اور محنتی سماجی کارکن ہے جاتے جاتے مزید ایک بات کا انکشاف کیا کہ ہمارے پاس ایک باقائدہ سٹور موجود ہے جس میں مکمل ٹینٹ کا سامان کرسیاں اور کفن دفن کا سامان موجود ہے۔علاقہ میں کوئی غمی خوشی ہو تو ہم انھیں یہ سامان فری مہیا کرتے ہیں ۔جب پوچھا گیا کہ کتنی کرسیاں موجود ہیں تو کہا گیا 3سو سے 4سو کرسیاں موجود ہیں ۔اس کے ساتھ غریب لوگوں کو کفن دفن اور پہلے دن کا خرچ بالکل مفت فراہم کیا جاتا ہے۔
قارئین یہ خیالی باتیں نہیں بلکہ حقیقت ہے آج بھی ڈسٹرکٹ اٹک کے گائوں فقیر آباد میں یہ سارا سیٹ اپ اور خود منیر احمد موجود ہر بندے کو وزٹ کی دعوت ہے کہ آئو اس نوجوان کے کاموں کو دیکھ کر ان سے سبق سکھیں تاکہ آپ میں بھی خدمت خلق کا جذبہ پید ا ہو منیر احمد کا کہنا تھا کہ میں عبد الستار ایدھی کو اپنا ایڈئیل پرنس مانتا ہوں انہی کی شحصیت کے نقش قدم پر چل کر انسانیت کی خدمت کرتا رہوں گا ۔میں مخیر حضرات اور انسانیت کا درد رکھنے والے انسانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں ہمارے ادراے کا وذٹ کریں پھر ہمارے شانہ بشانہ چل کر انسانیت کی خدمت کریں ہی انسان کی تخلیق کا مقصد ہے اسی کو اقبال نے کہا ۔۔در دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ۔مگر اطاعت کیلئے کچھ کم نہ تھیں کروبیاں قارئین۔آج بھی اگرایسے انسانوں کو سپورٹ کیا جائے اور حوصلہ افزائی کی جائے تو ہمارے معاشرے کا ہر نوجوان عبد الستار ایدھی بن کر انسانیت کیلے مسیحا کا کردار ادا کر سکتا ہے اگر ہر بند انسانیت کی خدمت کا جذبہ لئے ہوئے اپنا کردار ادا کرے تو وہ دن دور نہیں کہ کوئی با سہارہ بھی نہیں رہے گا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کھاتے وقت یہ سوچیں کہ ہمارے پڑوس میں کوئی ایسا شخص نہ ہو جو دو دن کا بھوکا ہو ،فضول خرچ کرتے وقت سوچیں کہ شاہد کوئی مریض اپنا علاج نہ کر سکتا ہوہر بندے کے اندر یہ جذبہ آ جائے گا تو معاشرہ ترقی کرے گا۔