تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری حلقہ ء فکروفن نے انکی یوم پیدائش پر اس عظیم شاعر کے کلام کو بے حد سراہا اور انکو زبردست خراج عقیدت پیش کیا حلقہء فکروفن کے صدر نے کہا منیر نیازی کی غزل کئی دکھوں سے تعمیر ہوئی اس میں محبت کے دکھ بھی ہیں اور سماجی درد بھی۔ کہیں کہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ہاں سماج کے بہت سے اندرونی دکھ محبت کے دکھ میں مل گئے ہیں۔ اور یہ دونوں دکھ مل کر کوئی اکائی تشکیل دے رہے ہیں۔
اُس آخری نظر میں عجب درد تھا منیر جانے کا اس کے رنج مجھے عمر بھر رہا جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میںبھی منیر غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
سیکریٹری جنرل وقار وامق ، ڈپٹی سیکریٹری حنا امبرین طارق اور ںاظم الامور ڈاکٹر طارق عزیز نے نے انکی غزل کو زیر بحث لاتے ہوئے کہا کہ منیر کے ہاں دو الفاظ بہت زیادہ ہیں ایک شہر اور ایک سفر ۔ ایسا لگتا ہے کہ منیر کی غزل کی غزل کا مسافر اندھیرے میں کھو گیا ہے ۔ اور شہر کے سارے مناظر اندھیرے میں کھو گئے ہیں ۔ اس لیے اُن کے ہاں سایے اور دھند کی کیفیت ملتی ہے۔ اُن کے ہاں تنہائی اور خوف کی فضاءموجود ہے۔ جو اُس دور کے نئے ماحول کو ظاہر کرتی ہے۔
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر اک حشر اس زمین پہ اٹھا دینا چاہیے
میری ساری زندگی کو بے ثمر اُس نے کیا عمر میر ی تھی مگر اس کو بسر اُس نے کیا
شہر کو برباد کرکے رکھ دیا اُس نے منیر شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اُس نے کیا
اس ادبی بحث میں ڈاکٹر معمود باجوہ ، یوسف علی یوسف ، عبدالرزاق تبسم ، محمد صابر قشنگ اور سجاد چوھدری نے بھی حصہ لیا۔