تحریر : عبدالرزاق آج تازہ ترین خبر پر نگاہ پڑی تو لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ بکھر گئی۔ خبر کچھ یوں تھی کہ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو گئی۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے اس میں طنزیہ مسکراہٹ کی کیا بات ہے لبوں پر تو حقیقی تبسم بکھرنا چاہیے تھا کہ ہماری سٹاک مارکیٹ نے ایک سنگ میل عبور کیا ہے اس پر داد تو بنتی ہے ۔ بات در اصل یہ ہے کہ یہ خبر پڑھنے سے پہلے بھکاری میری مت مار چکے تھے اس لیے میں نے طنزیہ مسکراہٹ پر ہی اکتفا کیا۔ میں شہر لاہور میں مقیم ہوں اوراس شہر میں بھکاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے بہت متفکر بھی ہوں جہاں بھی جاوں، میرا بھکاریوں کی ایک فوج سے آمنا سامنا رہتا ہے۔
لہٰذا یہ بھکاری جو کیڑے مکوڑوں کی طرح لاہور کی شاہراہوں پر جا بجا دیکھے جا سکتے ہیں حکومتی خوشحالی کے دعوے کو یکسر مسترد کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ وہ کونسے اشاریے ہیں جن کو دیکھ کر سٹاک مارکیٹ چھلانگیں بھر رہی ہے اندھی تو نہیں جسے سڑکوں پر پورے خاندان سمیت ڈیرہ جمائے یہ بھکاری نظر نہیں آتے ۔حتیٰ کہ لاہور کے پوش علاقہ مین مارکیٹ میں اس فوج کے پڑاو کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں ۔در حقیقت سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کا ایک ایسا کلب موجود ہے جو جب بھی سٹاک مارکیٹ میں گھستا ہے تو شیرز کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں اور ان ہی سرمایہ داروں کا جب دل چاہتا ہے سٹاک مارکیٹ کا دھڑن تختہ کر کے اور چھوٹے سرمایہ داروں کا خون نچوڑ کر سرمایہ پراپرٹی میں انویسٹ کر دیتے ہیں اور تب پراپرٹی کی قیمت آسمان کو چھونے لگتی ہے۔
یہ سرمایہ دار حکومتی معاونت سے اک مدت سے یہ کھیل کھیلنے میں مصروف ہے اور اپنی دولت کے پہاڑ استوار کر رہے ہیں ۔ ملک میں حقیقی خوشحالی تو تب دیکھنے کو ملے گی جب ملک کی شاہراہوں پر ہمیں کوئی ایک شخص بھی ہاتھ پھیلاتا نظر نہ آئے تب سٹاک مارکیٹ میں معمولی بڑھوتری بھی ملکی خوشحالی کی حقیقی عکاس ہو گی قائم علی شاہ کی رخصتی اور مراد علی شاہ کی آمد کے بعد خیال کیا جا رہا ہے کہ اب سندھ بھی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے مقابلہ پر اتر آیا ہے ۔چونکہ 2018کے انتخابات میں صرف پونے دو سال رہ گئے ہیں اس لیے پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ فکر لاحق ہوئی ہے کہ کسی طریقے سندھ کی رائے عامہ کو تو اپنے حق میں محفوظ کر لیا جائے۔
Pakistan Stock Market
اسی مقصد کی خاطر پیپلز پارٹی کی قیادت نے قائم علی شاہ کی جگہ مراد علی شاہ کے سر وزارت اعلیٰ کا سہرا سجایا ہے کہ وہ فعال ہو کر سندھ کے مسائل پر توجہ دیں تاکہ 2018 کے انتخابات کے موقع پر پیپلز پارٹی کے امیدوار عوام کو منہ دکھانے کے قابل ہو سکیں اور امید بھی کی جا رہی ہے کہ مراد علی شاہ سائیں قائم علی شاہ کی نسبت اچھا پرفارم کریں گے۔ تا دم تحریرمراد علی شاہ کی جانب سے ایک مستحسن اقدام منظر عام پر آ چکا ہے کہ انہوں نے رینجرز کے اختیارات میں تین ماہ کی توسیع اور سندھ میں ایک سال کے قیام کی سمری پر دستخط کر دئیے ہیں۔
اس فیصلہ کے اثرات سٹاک مارکیٹ میں بھی محسوس کیے گئے اور مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ایک نظریہ کے تابع معرض وجود میں آنے والا پاک وطن نہ جانے کیوں طرح طرح کے بحرانوں کی زد میں ہے ۔ ٹی وی آن کریں یا اخبارات کا مطالعہ کریں ایسی ایسی دل دہلا دینے والی خبریں سماعتوں اور نگاہوں سے ٹکراتی ہیں کہ دن بھر طبعیت بوجھل رہتی ہے اور کوئی کام کرنے کو دل نہیں کرتا۔کہیں دہشت گردوں اور تخریب کاروں کی جانب سے کی گئی مذموم کاروائی کے نتیجے میں ہلاکتیں دل کو چیرنے کا سبب بن رہی ہوتی ہیں تو کہیں ڈکیتی اور لوٹ مار کی وارداتیں رپورٹ ہو رہی ہوتی ہیں۔
کہیں بچوں کے اغوا پر مائیں نوحہ کناں حکمرانوں سے سراپا سوال دکھائی دیتی ہیں اور کہیں بنت حوا کی عصمت ریزی ہماری اخلاقی اقدار کی زبوں حالی کا چہرہ دکھا رہی ہوتی ہے ۔یوں ایک ایک خبر دل پر ہتھوڑا برسا رہی ہوتی ہے۔ کہیں بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی پر متاثرین کا احتجاج جلوہ سکرین ہے تو کہیں سیلاب کی تباہ کاریاں دل و دماغ کو شل کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔ اور یہ سب خرافات ہمارے ہی اوپر عفریت کی صور ت کیوں مسلط ہیں غو رطلب مسلہ ہے۔
اس عفریت سے ہماری جان کیسے چھوٹے گی اور کون چھڑائے گا۔ کیونکہ حکمران چہرے تو وہی ہیں جن کو کئی دہائیوں سے ہم دیکھ رہے ہیں۔ ان حکمرانوں نے ملک کے اہم اداروں کو منظم اور مربوط بنیادوں پر استوار کرنے کے بجائے ان کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ یہ وہ ادارے ہیں جن کی متاثر کن کارکردگی ان بحرانوں سے ہماری جان چھڑا سکتی ہے جو ملک کو نگلنے کو تیار ہیں۔ جب تک ملکی ادارے فعال اور خود مختار نہ ہوں۔ سیاسی مداخلت سے پاک نہ ہوں اور یہ ادارے کارکردگی کے اعتبار سے بے مثال نہ ہوں تب تک بگڑے معاملات کے درست ہونے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔
Media
دوسری جانب ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بحیثیت قوم ہماری اخلاقی بالا دستی قصہ پارینہ بن چکی۔ پوری قوم میڈیا کے سحرمیں پوری طرح جکڑی دکھائی دیتی ہے۔ کوئی تعلیم یافتہ ہو یا جاہل،غیر مسلم ہو یا مسلمان ،گورا ہو یا کالا ، چھوٹا ہو یا بڑا،مرد ہو یا عورت،بوڑھا ہو یا بچہ سب ہی میڈیا کے دیوانے ہیں۔خواہ کسی کا تعلق دینی گروہ سے ہے یا کوئی سیاسی بازی گر ہے۔
چاہے کوئی سماجی کارکن ہے یاوزیر،مشیر۔ اپنی خدمات کا چرچا میڈیا کے کسی نہ کسی فورم پر دیکھنے کا متمنی ہے۔اور اس دوڑ میں ہر جائز ناجائز کی پرواہ کیے بغیر یہ سلسلہ پورے طمطراق سے جاری ہے۔ اس اخلاقی کجی کی زد میں آ کر معروف ماڈل قندیل بلوچ دنیا سے ہی رخصت ہو چکی ہے اور مفتی قوی اپنی نیک نام شہرت کو داغ دار کر چکے ہیں کونسی برائی ہے جس سے اسلام نے منع نہ کیا ہو لیکن ان دنوں کونسی ایسی خرافات ہیں جو ہمارے نوجوانوں میں موجود نہ ہوں۔
ہم بظاہر تو اسلام کے نام لیوا ہیں اور دین کے لیے اپنی جان تک دینے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں لیکن اس کی تعلیما ت پر عمل کرنا ہمیں گوارا نہیں ہے اسی منافقت کی وجہ سے اسلامی تعلیمات کے فروغ میں بھی مشکلات حائل ہیں دوسرے مذاہب کے لوگ ہماری تعلیمات نہیں ہمارا عمل دیکھتے ہیں اور ہمارے عمل تو اسلامی تعلیمات سے قطعی مطابقت نہیں رکھتے ۔چنانچہ ہماری اپنی کوتاہیوں اور دشمنوں کے ہماری اسلامی تہذیب و تمدن پر کاری وار نے ابتر صورتحال کو جنم دے دیا ہے فکر مندی کی بات تو یہ ہے کہ ان حالات میں پاکستان آنے والے کچھ سالوں میں عالمی افق پر کہاں کھڑا ہو گا۔ اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوے پاکستان کے ہر عالم، دانشور، ،صحافی، ڈاکٹر، وکیل، کسان،محنت کش اور مزدور سب کو عہد کر لینا چاہیے کہ وہ پاکستان کی خوشحالی اور وقار کے لیے اپنا اپنا بھرپور حصہ ڈالیں گے تبھی تشویش کے بادل چھٹ سکتے ہیں۔