تحریر : محمد اشفاق راجا توقع کے عین مطابق سید مراد علی شاہ سندھ کے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے ہیں۔ تحریک انصاف کے امیدوار خرم شیر نے بھی مقابلے کا جمہوری حق استعمال کیا اور اپنی پارٹی کے تین ووٹ حاصل کرلئے، کچھ عرصے تک ان کی جماعت سندھ اسمبلی میں چار ووٹ رکھتی تھی، حفیظ الدین تھوڑا عرصہ ہوا پاک سرزمین پارٹی کو پیارے ہوگئے، اس لئے اب تین ارکان ہی رہ گئے تھے جنہوں نے اپنے امیدوار کو ووٹ دیدیا۔ شاہ صاحب کو منتخب ہونے کیلئے 85 ووٹ درکار تھے انہیں 88 مل گئے۔ وہ سادہ اکثریت سے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے اور یہی جمہوریت کی ضرورت ہے۔ برطانیہ میں کم ازکم ایک بار ایسا ہوچکا ہے کہ وزیراعظم ولسن ایک ووٹ کی اکثریت سے پانچ سال پورے کرگئے۔ بعض اینکر حضرات سوال کر رہے تھے کہ پیپلز پارٹی ووٹ کیلئے ایم کیو ایم سے رابطہ نہیں کر رہی۔
اسے ایسا کرنا چاہئے تھا۔ اگر پیپلز پارٹی کو متحدہ کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی اور وہ یہ دیکھتی کہ اس کی حمایت کے بغیر اس کا امیدوار وزیراعلیٰ منتخب نہیں ہوسکتا تو وہ ضرور ایسا کرتی، آخر دونوں جماعتیں ماضی میں بھی اکٹھی رہی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں میں شریک اقتدار تھیں’ دونوں میں شکرنجیاں بھی ہوتی رہیں، کئی بار ایم کیو ایم کے وزراء نے وزارتوں سے استعفے بھی دیئے اور طویل عرصے تک روٹھ کر بیٹھے رہے لیکن پھر انہیں منالیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے دوسری جماعتوں کے تعاون سے وفاق میں بھی پورے پانچ سال اس عالم میں حکومت کی کہ اسے اسمبلی میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہ تھی، لیکن اب کی بار سندھ میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم میں جو فاصلے موجود ہیں وہ پاٹے نہیں جا رہے، اس کی کچھ وسیع تر وجوہ بھی ہوسکتی ہیں۔ دوریوں میں بھی بعض اوقات دل کشی ہوتی ہے۔
سید مراد علی شاہ بڑے شاہ صاحب کی کابینہ میں خزانے کے وزیر تھے اور کئی دوسری وزارتوں کا چارج بھی ان کے پاس تھا۔ وزارت علیا اور سیاست ان کیلئے نئی نہیں ہے، ان کے والد سید عبداللہ شاہ بھی وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ منتخب ہونے کے بعد مراد علی شاہ اپنے والد کے ذکر پر جذباتی ہوگئے۔ عبداللہ شاہ کی وزارت علیا کا دور کیسا تھا اس پر بھی بات ہوسکتی ہے، لیکن اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ آگے کی طرف دیکھا جائے اور یہ جائزہ لیا جائے کہ مراد علی شاہ کا دور کیسا ہوگا؟ انہوں نے جس صوبے میں سرکاری ملازمتیں کیں اب اس صوبے کا چیف ایگزیکٹو بن کر وہ اس میں کیا تبدیلی لائیں گے۔ انہوں نے حلف اٹھانے کے بعد اپنی بعض ترجیحات کا تعین کیا ہے جسے چند الفاظ میں سمو دیا ہے ”صاف کراچی، سرسبز تھرپارکر اور پرامن سندھ” اگر وہ اپنے ان الفاظ کی لاج رکھ سکے تو وہ کامیاب وزیراعلیٰ کہلائیں گے۔ ایسا نہ ہوسکا تو ناکام وزرائے اعلیٰ کی طویل فہرست میں ان کے نام کا بھی اضافہ ہو جائے گا۔
Pakistan
قیام پاکستان کے فوراً بعد مہاجروں کی یلغار کے باوجود کراچی ایک صاف ستھرا شہر تھا، تو اب کیا وجہ ہوگئی کہ پورے شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں۔ وہ اگر کراچی کے پہلے میئر کے دور پر ایک نظر ڈال لیں یا اس دور کی فائلیں پڑھنے کا وقت نکال لیں تو کراچی پھر سے صاف ستھرا بن سکتا ہے لیکن اس کیلئے ”چائنہ کٹنگ” جیسے کام ختم کرانا ہوں گے۔ نومنتخب وزیراعلیٰ نے جس گورنر ہاؤس میں حلف اٹھایا، اس کے اطراف میں بھی جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر دیکھے جاسکتے ہیں۔ شہر کی یہ حالت کیونکر ہوگئی؟ مراد علی شاہ کو پہلے تو یہ معلوم کرنا چاہئے، اگر وہ مرض کی صحیح تشخیص کرسکے تو پھر درست علاج بھی مشکل نہیں ہوگا۔ بنیادی طور پر شہروں کی صفائی ستھرائی بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے لیکن چونکہ اس جانب سے بہت زیادہ کوتاہی برتی گئی اور بلدیاتی انتخابات ہو جانے کے باوجود یہ ادارے کام شروع نہیں کرسکے۔ وزیراعلیٰ کو اس بات کا اہتمام کرنا چاہئے کہ بلدیاتی ادارے جتنی جلد ممکن ہوسکے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔
کراچی شہر میں چونکہ ایم کیو ایم کے لوگ منتخب ہوئے ہیں اور میئر کا تعلق بھی اسی جماعت سے ہوگا، اس لئے ممکن ہے سیاسی بنیادوں پر یہ بات وزیراعلیٰ کو پسند نہ آئے لیکن انصاف کا تقاضا ہے کہ جو جس کام کیلئے منتخب ہوا ہے وہ اسے سونپا جائے۔ اگر پیپلز پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ اگر شہر میں بلدیاتی اداروں کا انتظام و انصرام ایم کیو ایم کے سپرد ہوگیا تو اسے سیاسی طور پر نقصان ہوگا تو یہ سوچ مثبت نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے بعض ارکان پر اگر کچھ الزامات ہیں تو ان سے قانون کے مطابق نپٹا جاسکتا ہے، لیکن اس بنیاد پر ان کا حق غصب نہیں کیا جاسکتا۔
اگر پورے صوبے میں بلدیاتی ادارے تیزی سے کام شروع کردیں تو صرف کراچی ہی صاف نہیں ہوگا پورا صوبہ ہی صاف ہو جائے گا۔ اگرچہ مراد علی شاہ نے حوالہ صرف کراچی کا دیا ہے، لیکن پورے صوبے میں بھی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں درست کرنے کی ضرورت ہے، جہاں دھول اڑتی ہے اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی وجہ سے اکثر حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کا انتخاب مکمل کرانے کے بعد وزیراعلیٰ کو ان کی ذمہ داریاں سونپ دینی چاہئیں۔
Tharparkar
تھر کا حوالہ بھی مراد علی شاہ نے دیا ہے، یہ علاقہ عشروں سے مختلف قسم کے مسائل کا شکار ہے۔ پانی کی قلت ہے تو خوراک کے مسائل بھی ہوتے ہیں۔ میلوں تک پانی کا وجود نہیں اور صحت کی سہولتیں ناپید ہیں۔ دیہی علاقوں کا تو کیا کہنا تھر کا مرکزی شہر مٹھی بھی ہر قسم کی سہولتوں سے محروم ہے، ہسپتال موجود ہے لیکن ڈاکٹر اور ادویات نہیں ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ پسماندہ علاقوں کی نشستوں کی بنیاد پر جو طالب علم میڈیکل کالجوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ بھی ان علاقوں میں خدمات انجام دینے کو اپنی ہتک تصور کرتے ہیں۔ خوراک اور پانی کی قلت کی وجہ سے اموات کی شرح زیادہ ہے بچے بھی زیادہ مرتے ہیں۔ اگر مراد علی شاہ ان مسائل کا عشر عشیر بھی حل کردیں تو ان کا نام احترام سے لیا جائے گا۔
سندھ کی شاہراہیں پرامن نہیں ہیں، بعض علاقوں میں تو ڈاکو راج ہے۔ شاہ صاحب کا اپنا تعلق اندرون سندھ سے ہے، اس لئے ان سے بہتر کون جانتا ہے کہ یہاں امن و امان کی کیا حالت ہے، لیکن مسائل کا علم ہونا کافی نہیں ان کا حل بھی ضروری ہے، لیکن سندھ پولیس میں جس طرح سیاسی اثر و رسوخ نفوذ کرچکا ہے اس کی وجہ سے امن و امان کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور قانون کے محافظ خود قانون شکنی پر اتر آتے ہیں۔ یہ مسئلہ خاصا گھمبیر ہے تاہم مراد علی شاہ نے اس کے حل کا آغاز ہی کردیا تو بڑی بات ہوگی۔ سندھ میں گھوسٹ سکولوں کا وسیع سلسلہ پھیلا ہے۔
اساتذہ باقاعدگی سے تنخواہیں لیتے ہیں لیکن سکولوں کا رخ نہیں کرتے اس لئے کہ اساتذہ کی بھرتی بھی میرٹ پر نہیں ہوتی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اندرون سندھ چھٹی جماعت میں زیر تعلیم بچے دوسری تیسری جماعتوں کے سوالات کا بھی درست جواب نہیں دے سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ان جماعتوں میں پڑھا نہیں ہوتا، بس ان کے نام اگلی جماعتوں کے رجسٹروں میں درج ہو جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر کرپشن کا راج ہے، جو صوبے کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک پھیلا ہوا ہے اور جس میں وزیروں سے لے کر افسروں تک سب ملوث ہیں، ان کے سرپرست بھی بڑے بڑے مناصب پر بیٹھے ہیں۔ کیا مراد علی شاہ اس جانب توجہ دے پائیں گے۔