ترکی (جیوڈیسک) ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے مطابق سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے ایک آڈیو ٹیپ جرمنی، امریکا، فرانس، سعودی عرب اور برطانیہ کے حوالے کر دی گئی ہے۔
ترک حکام کے مطابق اس آڈیو ٹیپ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کا قتل کس طریقہ کار کے تحت کیا گیا تھا۔ کئی مرتبہ تردید کے بعد سعودی عرب نے یہ اقرار کر لیا تھا کہ جمال خاشقجی کو ان کے قونصل خانے میں ہی قتل کیا گیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد مشرق وسطیٰ کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ترک صدر اس صورت حال میں مزید امریکی حمایت کا سہارا لے سکتے ہیں۔ تجزیہ کارسمجھتے ہیں کہ خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب پر بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور اس دباؤ کو بڑھانے میں ترکی بھی اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے مطابق سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے ایک آڈیو ٹیپ جرمنی، امریکا، فرانس، سعودی عرب اور برطانیہ کے حوالے کر دی گئی ہے
ہفتے کے روز ترک صدر کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’انہوں نے وہ گفتگو سنی ہے، جو وہاں ہوئی تھی۔‘‘ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس آڈیو ریکارڈنگ کے ساتھ کوئی لکھی ہوئی دستاویز پیش نہیں کی گئیں۔ ترک صدر پہلے ہی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ خاشقجی کے قتل میں سعودی عرب کی ’اعلیٰ قیادت‘ ملوث ہے۔ ترک صدر نے یہ بیان فرانس میں پہلی عالمی جنگ کے سو برس مکمل ہونے کی تقریبات میں شرکت کرنے سے پہلے دیے ہیں۔
بین الاقوامی تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس میں شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے امور کی ڈائریکٹر لینا خطیب کا خیال ہے کہ خاشقجی کے قتل کے بعد ترک صدر ایردوآن کو ایک سنہرا موقع میسر آیا ہے کہ وہ سعودی عرب کے بجائے ترکی کو مسلم دنیا کا ایک نیا لیڈر بنا سکیں۔ خطیب کے مطابق خاشقجی کے قتل سے پیدا ہونے والی صورت حال ایک جغرافیائی و سیاسی بحران ہے اور یہ ترکی کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔