تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری توہین رسالت قتل سے بھی بڑا اور قبیح جرم ہے۔ قتل کرنے سے کوئی ایک دو افراد جان سے گزر جاتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ناجائز اور معصوم کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ مگر توہین رسالت کرنے والا ساری انسانیت اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل کو دکھ دے کر چیر ڈالتا ہے۔ قرآن مجید جو آپۖ پر ہی اتارا گیا تھا اس میں کئی خدائی احکامات آقائے نامدار ۖ کی شان میں بیان ہوئے ہیں اور توہین کرنے والوں کیلئے سخت عذاب ہے۔ سوشل میڈیا ، برقی ذرائع ابلاغ اور اخبارات وغیرہ سبھی میں توہین رسالت کے بارے میں شور شرابا سنائی دے رہا ہے مگر کسی حکمران یا انتظامیہ نے ایسے افراد کیخلاف قطعاً فوری کوئی کاروائی نہیں کی۔ اب چند بلاگز پر پابندی عائد ہوئی ہے اور چندافراد کی گرفتاری بھی عمل میں آگئی ہے۔ مگر اصل ملزمان بیرون ملک فرار ہوگئے اور اپنے آقاؤں سود خور سامراجی قوتوں کے چرنوں میں جابیٹھے ہیں ۔حالانکہ مرتدین و زندیقین کی گردن زدنی ہی فوری سزا ہے اور ایسے افراد کو کوئی صورت قطعا ً معاف کرنے کی نہ ہے۔ نبی کریم ۖ سے محبت کا تقاضا ہے کہ ذی شعور مسلمان اپنے مال ، اپنے ماں باپ ، اپنی اولاد سے کہیں زیادہ اپنے نبی ۖ سے محبت کریں،تبھی ان کا ایمان مکمل ہوگا۔ آپۖ آخری نبی کے طور پر تشریف لائے۔ امام الانبیاء اور خاتم المرسلین ۖ کی تعلیمات رہتی دنیا تک کیلئے ہیں۔
کسی کمبخت کو ان کے بارے میں کسی ایسے ویسے خیالات کی جرأ ت نہیں ہوسکتی جس سے کوئی بھی توہین آمیز پہلو نکلتا ہو۔ فرمان خداوندی کہ ”نبی ۖ نہ اپنی طرف سے کچھ کہتا اور نہ کچھ اپنی طرف سے کرتا ہے” غرضیکہ اس طرح آپ کے تما م قول و فعل اور حرکات و سکنات تک بھی اللہ جل شانہ’ کے احکام کی پیروی ہی ہیں۔ ان پر تو کسی قسم کے توہین آمیز کلمات اشارتاً بھی ادا کرنا یا کسی قسم کی حرف زنی کرنا خود رب العالمین پر حرف زنی کے مترادف ہے۔ -7ستمبر1974ء کو قادیانی ناسوروں سے قومی اسمبلی کی ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے جان چھڑا لی گئی تھی ان کی تمام شیطانی تحریریں باطل قرار پاگئیں اور و ہ غیر مسلم اقلیت قرارپاگئے تھے۔مگر یہ لوگ اسرائیلی ایجنٹ بنے ہمارے ہی ملک کی جڑیں کھودنے اور کھوکھلی کرنے سے باز نہیں رہتے۔ان کا یہ موقف کہ ہم پاکستان کی تقسیم پر راضی ہوئے تو ایسے ہی نہیں مگر کوشش کریں گے کہ جلد از جلد آپس میں مل جائیں ان کا سرکاری اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہونا قطعی ملک دشمنی کے زمرہ میں آتا ہے۔
ملکی آئین میں 2جون 1992ء کو آئین پاکستان میں ایک متفقہ قرارداد شامل کی گئی تھی جس میں ناموس رسالت پر حملے کرنے والوں کیلئے سزائے موت تجویز کی گئی تھی ۔ توہین رسالت کے مجرمین کی قرآن و سنت حتیٰ کہ ملکی قانون کے مطابق بھی سزائے موت ہی ہے۔ سوشل میڈیا ہو یا دیگر الیکٹرونک یا پرنٹ میڈیا کو ناہنجاربدکردارلوگوںنے اپنی مذموم خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ اور عیش پرستانہ کرداروں کا اڈا بنا رکھا ہے۔ ہماری تمام مذہبی اور سبھی سیاسی جماعتوں کی رائے ہے کہ تمام غلاظتیں بیان کرنے والوں کو سامراجی ، سیکولر قوتوں، ہندو بنیوں، یہود و نصاریٰ ، اسرائیلیوں اور قادیانیوں کی آشیر باد حاصل ہے۔ جو اس بات سے واضح ہوجاتی ہے کہ جونہی ایسے افراد کے خلاف کاروائی کا آغازہوا یہ سبھی بیرونی ملکی آقاؤںکے پاس چلے گئے ہیں۔
ہماری سیکولر انتظامیہ اور کرپٹ ، بدکردار ، سود خور حکمرانوں کا ان کو ای سی ایل پر بھی نہ ڈالنا خود قومی جرم قرارپاتا ہے۔ وہ انہی کے دیکھتے دیکھتے بیرون ملک فرارہونے میں کامیاب ہوگئے۔ امام ابن تیمیہ نے توہین رسالت کے مرتکبین کی سزا صرف موت کو قراردیا ہے۔ مزید یہ کہ ان کے ساتھ کسی قسم کی رورعایت کامعاملہ کرنے کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا۔ خدا خود ایسے افراد کو رسوا کن عذاب سے دوچار کرے گا۔ پچھلے دنوں ایسی خبریں بھی آتی رہیں کہ سڑکوں پر لگے بورڈوں کے پیچھے خالی جگہ پر اللہ اکبر لکھاگیا مٹایا گیا ہے حالانکہ وہ دوسری طرف سے آنے والی ٹریفک کو چمکتا ٹیپ سے لکھا اللہ اکبر کسی بھی ایکسیڈنٹ سے بھی بچاتا تھا۔ چمکدار ٹیپ سے لکھا اللہ اکبر کا بورڈ دور سے نظر آجاتا تھا اور ٹریفک کراسنگ کے وقت اس سے ہٹ کر گزر جاتی تھی۔ کئی ایکسیڈنٹ اس سے کم ہوگئے تھے اور اللہ اکبر کا لفظ جوا یک دفعہ پڑھ لے اس کیلئے جنت الفردوس میں ایک ایسا بڑا درخت لگ جاتا ہے جس کے نیچے اصیل گھوڑا لاکھوں کروڑوں سال دوڑتا رہے تو اس کی چھاؤں ختم نہیں ہوتی۔ سفر کرتے مسافر اللہ اکبر کو پڑھتے اور ثواب پاتے تھے۔ جو حکمران یا سیکولر انتظامی افسران ایسی حرکات کے خود مرتکب ہوئے ہیں یا نچلے عملہ کو اللہ اکبر کی اس تحریک کو مٹانے کا حکم دیا ہے ان پر لازماً توہین رسالت سے بھی بڑا جرم کرنے کا عذاب ضرور خدائے عزو جل اتاریں گے۔ اور خود حکمرانوں کے لئے بھی سخت وعید ہے کہ جنہوں نے اللہ کے پاک نام سے اٹھنے والی تحریک کی طرف سے لکھے گئے اللہ اکبر کے الفاظ کو کھرچ کھرچ کا اکھاڑااور ان الفاظ کو پاؤں میں روند ڈالنے اور ٹریفک کے ٹائروں کے نیچے کچلے جانے کیلئے چھوڑ دیا۔ اس سے بڑااپنے آپ پر ظلم اور موجودہ حکمران کیا کریں گے؟شائد توہین رسالت کے ملزمان کی امداد کرنا اور ایسے ہی دوسرے بڑے گناہوں کی سزا انہیں ملنے جارہی ہے اور وہ عوام کے دلوں میں ذلیل و خوار اور کرپٹ بدکردار شخصیات بن کر رہ گئے ہیں۔
نبی اکرم ۖ کی رسالت کی توہین قادیانی اپنی کتب اور ناپاک لٹریچر کے ذریعے کرتے رہتے ہیں ان پر اور اللہ کی کبریائی کو بلند کرنے والے لفظ اللہ اکبر کو مٹانے والوں کیلئے مرتد کی شرعی سزا ضرور نافذ ہوگی کہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔ ظاہراً معصوم مگر پرانے جرائم کی بنیا دپر کوئی بھی شخص بڑی سے بڑی سزا پاجاتاہے۔ نواب محمد احمد خاں قصوری کو واقعی براہ راست کسی حکمران نے خودقتل نہیں کیا تھا ،بھٹو مرحوم کا عدالتی مرڈر ضرور ہوا مگر اس سے قبل ڈاکٹر نذیر شہید، مولانا شمس الدین شہید، خواجہ رفیق شہید اور حنیف برکت شہید کو قتل کروانے کی ذمہ داری آخر کس پر تھی؟یہی خدا کی سنت ہے کہ خدائے عزو جل توہین رسالت کے مجرمین اور توہین خداوند ی کرنے والوں کو کسی دوسرے ہی جرم میں اس کی سزا دے ڈالے گا ۔ ہر مومن مسلمان پر اپنے آقائے نامدار حضرت محمد مصطفیٰ ۖ کا ہرطرح سے احترام و تعظیم کرنا فرض ہے ۔ کہ اس کے بغیر ایمان مکمل ہی نہیں ہوتا اور خود خداتعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے بھیجے ہوئے آخری نبی حضرت محمد ۖ کی تکریم و احترام کرنے کا حکم دیا ہے۔