تحریر : انجینئر افتخار چودھری ہابیل نے قابیل کو قتل ایک عورت کے لیئے کیا تھا اور ہم سب نے سنا ہے کہ فتنے کی جڑ زن زر اور زمین ہوتے ہیں ہر قتل کے پیچھے یہ تین ز ہوتی ہیں بخشیش کے قتل پر لوگوں نے نوحے لکھے ان میں میں بھی شامل تھا۔اور اب جو کچھ میں سن رہا ہوں وہ ہمارے معاشرے کا بڑا المیہ ہے میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ اخبار مالکان اگر اگر نمائیندوں کو معقول تنخواہ دیں تو وہ کبھی اوچھے ہتھکنڈے نہیں اپنائیں گے میں نے ایک اردو ہفت روزے کی بات کی تھی جس کی نمائیندگی میرے ذمے تھی ہر ماہ کی تین تاریخ کو لکھی ہوئی سطروں کے مطابق مجھے چیک مل جاتا تھا جو معقول رقم ہوتی تھی۔ہمارے صحافیوں کی بد قسمتی ہے کہ انہیں معاوضہ نہیں ملتا ان کے کیمرے انشورڈ اور وہ خود غیر محفوظ ہوتے ہیں۔یہ تو سعودی اردو میگزین کی بات کر رہا تھا وہیں پاکستان کے ایک بڑے اخبار کی نمائیندگی کا اعزاز بھی ملا جسے کے دعوے بلند تھے وہ معاشرتی برائیوں کے خلاف جہاد کرنے کا دعوی کرتا تھا جب نمائیندگی ملی تو میں جدہ ایئرپورٹ پر مالک سے پوچھاحضور یہاں سے خبر بھیجنے کے خرچے ہیں وہ کون دے گا کہنے لگا تسی وی چنگے بندے او لوگ سانوں دیندے نیں تسی ساڈے کولوں منگدے او۔یعنی سانوں وی کھوائو تے آپ وی کھائو۔
یہ المیہ بخشیش جیسے بے شمار صحافیوں کا ہے ایک کارڈ تھما دیا جاتا ہے اور اس کے بعد اسے میدان میں چھوڑا جاتا ہے،میرے بعض دوستوں نے ایک لیڈرکے بغل میں بچہ دیکھ کر کہا واہ کیا بات ہے ۔اور مجھے خیال آیا کہ اس نوجوان لیڈر سے کہوں کہ لاہور میں جو شہید ہوئے ان کے بچوں پر بھی ہاتھ رکھنے کا مطالبہ کیجئے ۔ ۔ صحافی کی اپنی حیثیت کچھ نہیں ہوتی اس کے بچے ہوتے ہیں والدین جو ہر روز پیٹ کے جہنم کے لیئے کچھ مانگتے ہیں۔یہ لوگ شہر کے مخصوص لوگوں کے ارد گرد ہوتے ہیں جو خرچہ پانی چلاتے ہیں زیادہ آگے بڑھیں تو بلیک میلنگ کا سہارا لیتے ہیں۔روز روز کی بلیک میلینگ کے نتائج بھی وہی نکلتے ہیں جو ہم آئے روز دیکھتے ہیں ۔
میں نے سنا ہے کہ اس کیس کے پیچھے بھی زن تھی اور بلیک میلنگ تھی۔بخشیش کا المناک انجام کے پیچھے جو کہانی ہے وہ زیادہ دیر تک چھپ نہیں سکتی۔لوگ ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہیں لیکن جو میری تحقیق ہے اس کے مطابق بخشیش بے موت مارا گیا تھا اس کے پاس کون سے ایسے راز تھے جس کا وہ ذکر کرتا رہا ہے۔ایک عورت کے ساتھ تعلقات کے راز کے علاوہ کیا تھا ۔بخشیش کوئی ایٹمی سائینس دان نہیں تھا جسے راز چھپانے کے لیئے منظر عام سے ہٹایا گیا۔وہ ایک ایسا جرنلسٹ تھا جس کی گزر بسر اس طریقے سے ہوتی تھی جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے اسے ایک معمولی نوکری بھی دلائی گئی تھی۔
دکھ اس بات کا ہے کہ ایک ایسا نوجوان بری طرح منظر عام سے ہٹا دیا گیا جس کے ساتھ ذمہ داریاں جڑی ہوئی تھیں۔اجرتی قاتل پکڑے گئے کیس کون سا مشکل تھا فیس بک پر لڑائی جھگڑے اور فیک اکائونٹ کے پیچھے قاتل ڈھو نڈنے کے لئے کوئی راکٹ سائینس نہیں چاہیئے تھی۔بخشیش کا کیس کھلے گا تو اس میں اس خاتون کا بھی ذکر ہو گا جس کے بارے میں پولیس کو بتایا گیا تھا اور شہر بھر میں اس کی گفتگو ہوتی رہتی ہے میرا اللہ سب کا پردہ رکھے۔
اس میں شہر کے ایک بڑے آدمی کا نام لیا جا رہا ہے جسے میں بھی جانات ہوں اس بندے سے ککڑی نہیں ماری جاتی وہ ایک انسان کو کیا مارے گا؟میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ قتل ہے اور کے پی کے میں ہے یہاں چھپے گا نہیں کیوں کہ یہاں ماڈل ٹائون نہیں اور کوئی رانا ثنااللہ بھی نہیں پایا جاتا۔اگر کسی نے اس کار شر کی سر پرستی کی ہے تو جیلیں ان کا انتظار کریں گی۔
کسی کا شکوہ تھا کہ کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے کچھ نہیں کیا مثال کے قتل کا کیا بنا ہے انہیں شائد یہ علم نہیں کہ اگر اس میں عمران خان کی فیملی کا بھی کوئی بندہ ہوتا تو وہ کبھی پولیس سے نہیں بچاتا۔مثال کے قاتل بھی گرفت میں ہیں اور چھوڑا انہیں بھی نہیں ۔کسی کو یاد ہو گا کہ میں نے لکھا تھا کہ قاتل پاتال سے بھی نکال لیئے جائیں گے اور یہی ہوا پنڈی کا اجرتی قاتل پکڑا گیا۔
یہاں سیدھی سی بات ہے جس نے گاجریں کھائی ہیں وہ پیٹ میں مروڑ بھی برداشت کرے لیکن یہ بھی زیادتی ہو گی کہ ان لوگوں پرانگلیاں اٹھیں جو شریک جرم نہ ہوں۔پی ٹی آئی کسی کی ذات کی غلام نہیں ہے اور خون تو خون ہے۔شہید صحافت کی شہادت پر بھی انگلیاں اٹھیں گی اس لیئے کہ ہر شخص شہید بھی نہیں ہو سکتا اگر خدانخواستہ بخشیش کا قتل ایک بلیک ملینگ کیس کا شاخسانہ ہے تو یہ بھی تاریخ کا حصہ بنے گا اور ان صحافیوں کے لیئے بھی عبرت ہو گا جو کسی کی بھی پگڑی اچھالنے میں دیر نہیں لگاتے۔انتظار کیجئے اور دیکھئے کہ اس پر اسرار کیس کے تانے بانے کہاں جا ملتے ہیں؟لیکن ایک بات کی گارنٹی دیتا ہوں ہری پور کے سارے شہر نے اس روز دستانے نہیں پہنے ہوئے تھے قاتل ضرور پکڑے جائیں گے۔