واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجے چنگیز نے دو برس قبل ترکی میں خاشقجی کے قتل کے معاملے میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور 28 دیگر افراد کے خلاف ایک امریکی عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے۔
واشنگٹن میں دائر کیے گئے اس مقدمے میں خدیجے چنگیز اور امریکا سے سرگرم انسانی حقوق کی ایک تنظیم ڈیموکریسی فار عرب ورلڈ ناو (DAWN) نے جمال خاشقجی کی موت کی وجہ سے پہنچنے والے ذاتی صدمہ اور مالی نقصانات کے لیے مقدمہ دائر کیا ہے۔ مقدمے پر کارروائی شروع ہوگئی ہے۔
ترک شہری خدیجے چنگیز اور ڈان نے امریکی عدالت میں دائر فوجداری کیس میں جمال خاشقجی کے قتل کے لیے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور 28 دیگر افراد کو فریق بنایا ہے۔ تاہم سعودی ولی عہد نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
امریکا میں مقیم صحافی اور کالم نویس سعودی شہری جمال خاشقجی سعودی حکومت کے سخت ناقد تھے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں بعض دستاویز حاصل کرنے کے لیے دو اکتوبر 2018 کو ترکی میں سعودی قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن انہیں دوبارہ واپس نکلتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
ترکی کے حکام کا کہنا ہے کہ فارینزک ڈاکٹر اور انٹلیجنس افسران پر مشتمل سعودی اہلکاروں کی ایک ٹیم استنبول پہنچی تھی اور اس نے قونصل خانے میں خاشقجی سے ملاقات کی۔ جس کے بعد ان کا قتل کردیا گیا اور ان کی لاش کے ٹکڑ ے ٹکڑے کردیے گئے، ان کی باقیات کا آج تک کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے۔
خدیجے چنگیز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘جمال کا خیال تھا کہ امریکہ میں کچھ بھی ممکن ہے اور میں انصاف اور احتساب کے حصول کے لیے امریکہ کے نظام عدل پر اعتماد کرتی ہوں۔‘
خدیجے چنگیز نے جمال خاشقجی کی موت پر ذاتی چوٹ اور مالی نقصانات کا دعویٰ کیا ہے جبکہ خاشقجی کے قائم کردہ انسانی حقوق کے گروپ ‘ڈان‘ کا کہنا ہے کہ اس کے بانی کے نہیں رہنے کی وجہ سے اس کے کاموں میں رکاوٹ آئی ہے۔
دائر کردہ مقدمے میں جیوری کی طرف سے طے کردہ ہرجانے کی رقم کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ چونکہ اس قتل کے سازش میں ملوث افراد امریکا سے باہر رہتے ہیں اس لئے مقدمے کی کارروائی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
خاشقجی کے قتل پر دنیا بھر میں ناراضگی کا اظہار کیا گیا تھا اور ترکی اور امریکا کے دباو کے بعد سعودی عرب نے اس معاملے میں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے آٹھ افراد کو جیل میں ڈال دیا تھا۔ تاہم سعودی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ یہ قتل کسی سازش کا نتیجہ نہیں تھا۔ سعودی عدالت نے شواہد کے باوجود شاہی خاندان کے دو اہلکاروں کو بری کردیا تھا۔ خدیجے چنگیز نے عدالت کے فیصلے کی مذمت کی تھی۔
جمال خاشقجی کیس پر کام کرنے والی اقوامِ متحدہ کی خصوصی نمائندہ ایگنس کیلامارڈ نے بھی سعودی مقدمے کی سماعت کو ‘انصاف کے منافی‘ قرار دیا تھا اور آزادانہ تحقیقات کی اپیل کی تھی۔
انھوں نے اس قتل کے سلسلے میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اتنے شواہد موجود ہیں کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور اعلیٰ عہدوں پر فائز دیگر سعودی افسران کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔
خاشقجی کی منگیتر خدیجے کا کہنا ہے کہ دونوں کی اسلامی اصولوں کے مطابق پہلے ہی شادی ہوچکی تھی اور وہ سول میرج کے تحت نکاح کے لیے قانونی ضرورتوں کو پورا کر رہے تھے۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ملزمین کو خاشقجی کے امریکی تعلقات کا علم تھا اور انہوں نے خاشقجی کو خاموش کرنے کے لیے انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کردیا تاکہ وہ امریکا میں رہتے ہوئے عرب دنیا میں جمہوریت کے لیے اپنی کاوشیں جاری نہ رکھ سکیں۔
سعودی ولی عہد نے اس واقعے سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اظہار کیا تھا تاہم انھوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ سعودی عرب کے رہنما کی حیثیت سے وہ اس کی ‘پوری ذمہ داری قبول‘ کرتے ہیں خاص طور پر اس لیے کیونکہ یہ جرم ایسے افراد سے مرتکب ہوا جو سعودی حکومت کے لیے کام کرتے تھے۔