تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری تلاش و سائل و روزگار آجکل اہم ترین مسئلہ بنا ہوا ہے آبادی شیطان کی آنت کی طرح بڑھ رہی ہے پاکستان اور بھارت میں ہی بالترتیب ڈیڑھ کروڑ اور آٹھ کروڑ سے زائد بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں کہ غربت کا سانپ ان کے خاندانوں کو مسلسل ڈس رہا ہے اور کئی گھروں کو تو اژدھا بن کر مکمل اجاڑ ڈالا ہے غربت اور جہالت کی وجہ سے ہی احمد پور شرقیہ میں تیل کے ٹینکر کے الٹنے پر تیل اکٹھا کرتے ہوئے ایک سو ستر سے زائد افراد جل بھن کر مر گئے۔
وسائل نداردتو تعلیم کیسے حاصل کریں گے؟دو وقت کی دال روٹی مشکل ہوچکی بچے کما کر نہ لائیں تو پیٹ کی آگ بجھانا مشکل ترین ہے ۔محلہ کے کریانہ سبزی والوں کا ادھاراس قدر بڑھ چکا ہوتا ہے کہ وہ مزید دینے سے انکاری ہوتے ہیںمغربی دنیا نے تو خدا کی طرف سے بھیجے جانے والے نومولود بچوں کو قتل کرنے میں اس کا حل سمجھا ہے اس طرح حمل ٹھہرتے ہی مانع حمل گولیاں کھلادیں چند دن کا حمل ہوا تو عورتوں کی بچہ دانی کے اندرچمٹوں نما اوزاروں سے نوزائیدہ کو مارڈالابوٹی بوٹی کھینچ ڈالی غرضیکہ خفیہ طور پر عجیب طریقے اختیار کرکے عورت کو زخمی زخمی کر ڈالتے ہیں جاہل عرب تو بچیوں کی پیدائش کو نحوست سمجھ کر زندہ درگور کرڈالتے تھے یہ غلیظ ترین رسم آقائے نامدار محمدۖکے آنے کے بعدختم ہوسکی اسلام نے تو پانچ شادیاں کرنے کی اجازت دے رکھی ہے غالباً صرف اسی لیے کہ رسولۖ کے فرمان کے بموجب مسلمانوں کی تعداد مسلسل بڑھتی رہے مغربی دنیا کا فلسفہ کہ بچوں کی تعداد کم سے کم یعنی 2سے زائد نہ ہو اس طرح سے انسانوں کی کمی کی وجہ سے موجودہ خوراک پوری ہو سکے گی۔
مولانا سید ابو لااعلیٰ مودودی نے اپنی مشہور کتاب “اسلام اور ضبط ولادت ” میں لکھا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ ایک ہاتھ کھانے کے لیے اور دو ہاتھ کمانے کے لیے لے کر آتا ہے اس طرح انسانوں کی تعداد بڑھنے سے رزق ڈبل ہوتا جائے گا کہ جو پوری دنیا کا پالن ہار ہے وہی خود ہی رزق کا ذمہ دار بھی ہے جو خدا پہاڑوں کے اندر موجود کیڑوں تک کو رزق مہیا کرتا ہے وہ باقی مخلوق کو کیسے بھوکا رکھ سکتا ہے۔شارک مچھلی کو ٹنوں کے حساب سے گوشت روزانہ کہاں سے مہیا ہوتا ہے؟یہ اسی ذات با برکات کی کرامات ہیںمغرب اس فلسفہ کو ماننے سے انکاری تو ہے مگرسید مودودی کی ضبط ولادت سمیت دیگر دو معرکةُ الاراء کتب سود اور پردہ میں دیے گئے دلائل کا جواب آج تک نہیں دے سکے۔
خوراک کی کمی در اصل ہماری کاہل الوجود اور کام چور نوجوان نسلوں کی وجہ سے ہے مغرب میں تو ہفتہ میں دو دن آرام کرتے ہیں باقی پانچ دنوں میں بھی چھ یا آٹھ گھنٹوں سے زائد کام نہیں کرتے۔حالانکہ فقہاء نے کہا ہے کہ جس نے کوئی کام یا مشن پورا کر نا ہو وہ ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرسکتا۔ سید مودودی سمیت بعض علماء کی لکھی گئی سینکڑوں کتب رت جگے کا ہی کمال ہیں سید مودودی نے مشہور تفسیر تفہیم القران تیس سال راتوں کو جاگ کر لکھی نوجوان نسل جو اب مختلف نشہ آور اشیاء کی عادی ہوتی جارہی ہے اپنے اکابرین کے نقش قدم پر چلے تو رزق حلال تلاش کرنے میں بہتات ہی نہیں ہو گی بلکہ فالتو اشیائے خوراک پیدا ہوسکتی ہیں اور ہم اپنے مسلم بھائیوں کو اسلامی دنیا میں بھی بھجواسکتے ہیں آقائے نامدار محمد ۖ کے واضح طور پر فرمان کہ میری امت کو بڑھائو سے مغربی لادینی سامراجی قوتیں تھر تھر کانپ رہی ہیں اور سخت خوف و سراسیمگی میں مبتلا ہیں کہ اس طرح تو مزید 15,20سالوں میں مسلمانوں کی تعداد بہت بڑھ جائیگی اور ون مین ون ووٹ کی بنا پر بالآخر مسلمان ہی زیادہ ممالک میں مقتدر ہوجائیں گے اسی خوف نے ان کی رات کی نیندیں حرام کر رکھی ہیںسامراجی ممالک نے جب ترقی پذیراسلامی ملکوں کی امداد شروع کی تو اس میں خاندانی منصوبہ بندی کی امداد بھی بغیر واپسی رقوم کے دینا شروع کر دی۔
پاکستان پر ایسے موڑ بھی آئے کہ بین الاقوامی سامراج کا قائد امریکہ نے ناراض ہوکر ہماری مکمل امداد بند کردی مگر ان حالات میں بھی خاندانی منصوبہ بندی والی مفت امداد بدستور جاری رہی کہ اس میںان کے مذموم مقاصد پوشیدہ تھے ۔ہماری عقل سے عاری قوم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ جس طرح ہمیں نا قابل واپسی ایڈ دے رہے ہیں اس میں ان کے اپنے مقاصد کی تکمیل کے علاوہ اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔قوم کو خواب خرگوش سے جاگنا ہوگا۔بھارت میں راجیو گاندھی نے مسلم نوجوانوں کی زبردستی نس بندی کی مہم شروع کی اور نوجوانوں کو گرفتار کرکے سخت تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں اولاد پیدا کرنے کی طاقت سے محروم کرڈالا جاتا رہاتاکہ مسلمانوں کی تعداد بڑھنے نہ پائے اور وہ ان کے راستے کا روڑا نہ بن سکیںمگرمفت اور ناقابل واپسی والی خاندانی منصوبہ والی ایڈ اور ہر گلی محلے میں دفاتر کے باوجود مسلمانوں کی تعداد دوسرے مذاہب کی نسبت زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔قرآن مجید میں بچوں کو افلاس کے ڈر سے قتل کرنے یا Abortionکروانے کو ناجائز قراردیا گیا ہے سورہ احقاف15اور سورة البقرة233سے پتا چلتا ہے کہ دودھ پلانے کی مدت دو سے اڑھائی سال ہے اس لیے دو بچوں کے درمیان اڑھائی سال کا وقفہ ہونا ضروری ہے مولانا یوسف لدھیانوی نے منع حمل کی تدابیر کو مقروح اور مفتی منیب الرحمٰن نے کہا ہے کہ حمل کو ساقط نہ کرنا چاہیے۔
بھارت نے سارا چولستان نامی ریگستان دن رات کی محنت سے آباد کرلیا مگر ہمارے ہاں کا نوجوان پہلے فلموں اور نشوں کا رسیا ہوتا تھا آجکل لیپ ٹاپ اور موبائل فون پردن رات گزارتا ہے اس طرح تساہل،عیش پرستی کی شکار مسلمان نوجوان نسل کیونکر ترقی پاسکتی ہے ؟ہر گز ہر گز نہیں ۔آج بھی ہم محنت کو شعار بنالیں اللہ اکبر تحریک کا جھنڈا اٹھا لیں تو ہندوستان پر کی گئی سات سو سالہ حکمرانی بھی واپس مل سکتی ہے اور دیگر ممالک پر بھی اسلام کاپرچم لہراسکتا ہے افیون زدہ چینی قوم کو احسن لیڈر شپ دستیاب ہوئی تو وہ تمام نشوں سے اُچاٹ ہوگئی اس وقت ہمہ قسم مشینری و دیگر مصنوعات بنانے میں نمبر ون ہوگئی ہے اور پوری دنیا کی معیشت پر قابض ہوچلی ہے اور ہم کہ پورے انڈو پاک کے حکمران تھے اب صرف اس کے1/10حصہ پر قابض ہیں اس کو بھی سامراج سے زبردست خطرات ہیں بارڈر پار ہندو بنیے ہمیں کسی خونخوار جانور کی طرح نگل جانا چاہتے ہیںدہشت گردوں کے خلاف ہم امریکہ کے اتحادی بنے مگر اب ٹرمپ اور موذی مودی کی یاری ہمارے لیے مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے آبادی کا علاج صرف نئے وسائل کی تلاش اور مزید خوراک کو بڑھانے کے لیے بنجر زمینوں کو آباد کرنا ہے۔آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے کچھ لوگ اولاد کو ترس رہے اور کچھ بچوں کی زیادتی پر آپریشن کروارہے ہیں سنگلاخ چٹانوں سے قیمتی معدنیات نکالنے خوراک میں خود کفیل ہونے کے لیے زائد افرادی قوت کی ضرورت ہے جو بہر حال محمد رسولۖ کے حکم پر کہ میری امت کو بڑھائو کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔