پٹواری پاکستان میں استعمال ہونے والی ایک اصطلاح ہے جس کا استعمال اس افسر یا عہدیدار کے لیے ہوتا ہے جو زمین کے متعلق دستاویزات وغیرہ رکھتا ہو۔ جب زمین کو خریدا یا فروخت کیا جاتا ہے تو پٹواری زمین کے کاغذات میں مالکان کے ناموں اور زمین کے متعلق دیگر معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ عام طور پر پٹواری نظام دیہاتی علاقوں میں ہوتا ہے۔ خاص کر ان علاقوں میں جہاں شرح تعلیم کم ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ پٹواری کا مقامی آبادی پر اثر و رسوخ بھی ہوتا ہے۔ یہ نظام پاکستان اور بھارت کے کئی علاقوں میں رائج ہے تاہم کچھ صوبوں نے الیکٹرونک طریقے سے زمین کے کاغذات کی رجسٹریشن شروع کی ہے جس میں کمپیوٹرائز طریقے سے زمین کی معلومات منتقل کی جاتی ہے۔ یہ لفظ پٹواری پاکستان میں چندسیاسی جماعتوں کے پیروکاروں کی پہچان بن گیا ہے، جو ایک متنازع معاملہ ہے۔ بات کی جائے موجودحکومت تحریک انصاف کی تو شروع دن سے ہی چیئرمین تحریک انصاف، وزیر اعظم عمران خان پٹواری کلچر کے خاتمے اور پٹواریوں کے نظام کی بہتری کے لئے کوشاں ہیں۔پنجاب حکومت کی جانب سے پورے صوبے میں زمین کا ریکارڈ کمپوٹرائزڈ کرنے کے لیے منصوبہ شروع ہونے کے باوجود پنجاب سمیت پاکستان بھرمیں آج بھی کپڑے کے ایک ٹکڑے کے ذریعے زمین کی نشاندہی کا پرانا نظام رائج ہے۔ پٹواری لٹھا کہلائے جانے والے اس نظام کے تحت پاکستان کے اکثر علاقوں میں زمینوں کا حساب کتاب رکھا جاتا ہے۔ آج کے جدید دور میں اس نظام کی موجودگی کی کئی وجوہات ہیں جن میں سرفہرست بدعنوانی کے مواقع بتائے جاتے ہیں۔جس کے تحت پٹواریوں کے دفاتر میں نجی سٹاف لوگوں کو کپڑے کے ٹکڑے کے ذریعے زمین کی نشاندہی کر کے دیتا ہے اور کچھ فیس بھی وصول کر رہا ہے جو بظاہر سرکاری خزانے میں جمع نہیں ہوتی۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق راولپنڈی میں تعینات ایک پٹواری نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ تحصیل دار سمیت اعلیٰ سرکاری افسران کی طرف سے اْن سے غیر سرکاری مطالبات کیے جاتے ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے اْن کے پاس لوگوں سے زمینوں کی نشاندہی اور نقل فراہم کرنے کے لیے پیسے لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔مختلف حلقوں میں تعیناتی کے لیے سفارش اور بولیاں لگائی جاتی ہیں اور جو پٹواری صاحبان سیاسی اثرورسوخ کے علاوہ افسران کے غیر ضروری مطالبات تسلیم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اْنہیں اْن حلقوں میں تعینات کیا جاتا ہے جہاں پر زمین کی خریدوفروخت کا کام سب سے زیادہ ہوتا ہے۔پٹوار خانے سے زمین کی نشاندہی کروانے کے بعد ریکارڈ آفس سے زمین کی نقل حاصل کرنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے۔راولپنڈی کا ریکارڈ روم انگریزوں کے دور میں بنائی گئی عمارت میں موجود ہے۔
ڈیڑھ سو سالہ پر انی اس عمارت میں زمین کا سولہ سالہ پر انا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ اس عمارت میں کچھ عرصہ قبل آگ بھی لگ گئی تھی جس سے زمین کا ریکارڈ جل گیا تھا۔ یہاں پر بھی زمین کی نقل حاصل کرنے کے لیے نظرانہ دیا جاتا ہے۔ اس ریکارڈ روم کے انچارج اس کی تردید کرتے ہیں۔زمینوں کی نشاندہی اور ملکیت کے بارے میں پٹواریوں کے فیصلوں سے متعلق لاکھوں مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ نیر شاہ بھی اْن افراد میں شامل ہیں جو پٹواری کے فیصلے سے متاثر ہوئے ہیں اور مبینہ طور پر اْن کی کروڑوں روپے مالیت کی زمین تنازع کا شکار ہوگئی ہے۔ اس زمین سے متعلق نیر شاہ کا مقدمہ گْزشتہ تیس سال سے عدالت میں زیر سماعت ہے۔
چند روز قبل ایک نجی میڈیا ہاؤس کے نمائندے رانا ذوالفقار نے ایک سروے رپورٹ کے لئے یارمحمد پٹواری حلقہ کوٹھاں کلاں تحصیل صدر راولپنڈی فون نمبر 03025452325 ہے اس پر الزام ہے کہ اس کے اپنے 4کلر ک 9جاسوس،6سے 7گن مین اور ہائیکورٹ راولپنڈی عمارت کے قریب نجی کوٹھی میں اپنے دفتر قائم کررکھا ہے یار محمد پٹواری کا نام راولپنڈی بلکہ صوبہ بھر کے بااثرپٹواریوں میں سے سرفہرست ہے سے صحافی نے رپورٹ کے سلسلے میں ملاقات کی تو چند سوالات کے جوابات اور موجودصورتحال پر بات کرنے کے بجائے ساتھیوں سمیت حملہ کردیا۔موبائل فون، کیمرہ اور ڈائری چھین لی جس پر صحافی برادری کی جانب سے احتجاج جاری ہے اور اس سلسلے میں درخواست ڈپٹی کمشنرراولپنڈی کے پاس زیر سماعت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پٹواری کا صحافیوں پر حملہ کیس ڈپٹی کمشنرراولپنڈی کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ قدرت اللہ شہاب نے ’ڈپٹی کمشنر کی ڈائری‘ میں عیدو نامی سائل کی داستانِ حسرت بیان کی ہے۔انبالہ سے ہجرت کرکے ضلع جھنگ میں آباد ہونے والے اس مہاجر کو متروکہ اراضی الاٹ ہوئی تھی جس پر کاشتکاری کے ذریعے وہ اپنے خاندان کی کفالت کر رہا تھا مگر اس دوران کسی بیرحم پٹواری نے الاٹمنٹ منسوخ کرنے کی دھمکی دی تو اس نے گورنر پنجاب، وزیراعلیٰ، وزیر بحالیات، کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور دیگر حکام کو داد رسی کیلئے درخواست بھجوا دی۔لاٹ صاحب، وزیراعلیٰ، وزیر بحالیات و دیگر حکام کے دفاتر کا طواف کرنے کے بعد یہ درخواستیں ’برائے مناسب کارروائی‘ سرکاری افسروں کی میز پر آتی گئیں اور فرض شناس افسر رپورٹ طلب کرنے کیلئے اسے ماتحت حکام کی طرف بھجواتے چلے گئے یہاں تک کہ یہ تمام درخواستیں افسر مجاز یعنی اسی پٹواری کے پاس جا پہنچیں جو اس غریب سائل کی اراضی ہڑپ کرنے کے درپے تھا، گویا اسی ’عطار کے لونڈے‘ کو مسیحائی کرنے کا کہہ دیا گیا جس کے سبب بیمار ہوئے تھے۔
اس نے ازراہ تلطف، سائل عیدو کو پٹوار خانے طلب کیا اور ان درخواستوں کا پلندہ اس کے منہ پر دے مارا، قدرت اللہ شہاب کے بقول اس پٹواری نے لگی لپٹی رکھے بغیر تنک کر کہا ’اب تم یہ درخواستیں جھنگ، ملتان یا لاہور لے جاؤ اور ان کو اپنے سالے باپوں کو دے آؤ عیدو اس تذلیل و تحقیر کے بعد بھی کوئے داد رسی کے طواف سے باز نہ آیا اور سرکاری دفاتر کی خاک چھانتا رہا۔اس دوران پٹواری نے اس کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی اور ضابطے کی کارروائی پوری کرنے کے بعد رپورٹ تحریر فرمائی جناب عالی! سائل مسمی عیدو فضول درخواست ہائے دینے کا عادی ہے۔اسے متعدد بار سمجھایا گیا کہ اس طرح حکامِ اعلیٰ کا وقت ضائع کرنا درست نہیں، لیکن سائل اپنی عادت سے مجبور ہے۔ سائل کا چال چلن بھی مشتبہ ہے اور اس کا اصل ذریعہ معاش فرضی گواہیاں دینا ہے۔ مشرقی پنجاب میں اس کے پاس کوئی زمین نہیں تھی۔بمراد حکمِ مناسب رپورٹ ہذا
پیش بحضورِ انور ہیگرداور اور قانون گو نے یہ لکھ کر درخواستیں تحصیلدار کے دفتر بھجوا دیں کہ رپورٹ پٹواری مفصل ہے۔درخواستیں اسی گول دائرے میں گھومتی ہوئی ان اعلیٰ حکام کے پاس واپس آگئیں جنہوں نے برائے مناسب کارروائی مارک کیا تھا، اس دوران ہر سرکاری افسر نے ایک ہی جملے کا اضافہ کیا رپورٹ پٹواری مفصل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پٹواری کلچر میں بہتری صحافیوں، اراکین اسمبلی اورحکمرانوں کو ملکی ترقی اور زمین، پلاٹس کے تنازعوں پر قتل عام کے سبب بننے والے ملازمین کو فارغ اور نظام کی درستی کے اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ ہم سب پاکستانی اس پٹواری کلچر کی زدمیں آتے رہیں گے۔