ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) ترک حکومت سوشل میڈیا پر اپنے مختلف اکاؤنٹس کے ذریعے اپنے مخالفین کو براہ راست دھمکیاں بھیج کر ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہی ہے ، حالانکہ “ٹویٹر” نے گزشتہ ماہ 7،300 جعلی اکاؤنٹ بند کر دیئے تھے جن کے صارف صدر رجب طیب ایردوآن کی پالیسیوں کی حمایت کر رہے تھے۔
“ترک جرنلسٹس یونین” کے تین عہدیداروں اور ٹی جی ایس کے نام سے مشہور یونین کے لیے کام کرنے والے ایک وکیل نے بتایا کہ “بہت سے لوگوں کو حکومت کی حمایت کرنے والے اکاؤنٹوں سے جان سے مارنے اور عصمت دری کی دھمکیوں کے بعد ترکی چھوڑنا پڑا۔”
اتحاد یونین کے ایک وکیل اولکو شاہین نے بتایا کہ میں ذاتی طور پر تین صحافیوں کو جانتی ہوں جنہیں سوشل پلیٹ فارمز پر دھمکیاں دے کر ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ اتحاد یونین ترکی میں سب سے پرانی پریس تنظیم ہے جو 1952 میں قائم کی گئی تھی۔
انہوں نے “العربیہ ڈاٹ نیٹ” سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ دھمکی آمیز پیغامات جعلی اکائونٹس سے بھیجے گئے تھے۔ یہ لوگ خود کو حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی “آق” کے ہمدرد ظاہر کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ “اس وقت تینوں صحافی ترکی سے باہر ہیں۔ دھمکیوں کے بعد ملک چھوڑنے والے ان تین صحافیوںکی شناخت آرک ایگرار ، رابعہ ناز اور متین سیہان کے ناموں سے کی گئی ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ یہ خطرات حقیقی ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو دبائو کے ذریعے اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے لیکن بدقسمتی سے ان کی تعداد کے بارے میں کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔
اولکو شاہین نے کہا کہ دیگر صحافیوں کو بھی واقعات کی فیلڈ کوریج کی وجہ سے مختلف اکاؤنٹس سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔
سنہ 2007ء کے جون میں وسطی استنبول میں ہلاک ہونے والے ارمینی صحافی ہیرنٹ ڈنک کی بیوہ راکل ڈنک نے ان دھمکیوں کا انکشاف کیا تھا جو انہیں ای میل کے ذریعہ موصول ہوئی تھیں۔ تب پولیس نے دھمکی آمیز مراسلات بھیجنے والے کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس میں صحافی کی بیوہ سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی این جی او کسی دوسرے ملک منتقل کرے۔ جو اس نے اپنے شوہر کے قتل کے بعد قائم کی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا نے ہرنٹ ڈنک فاؤنڈیشن کے خلاف بطور مشہور صحافی خطرات کو اجاگر کیا ہے ، لیکن کچھ دیگر ایسے بھی ہیں جو خاموشی سے دھمکیاں وصول کر رہے ہیں۔ کوئی ان کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہے۔
ان کی طرف سے “یونین” کے ڈائریکٹر جنرل اور دو تعلیمی تربیت دہندگان نے کہا کہ 4 سال قبل ایردوآن کی حکمرانی کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد ملک میں ہنگامی حالت نافذ ہے۔ اس دوران صحافیوں کے لیے سائبر خطرات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
ان تینوں نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قتل اور آبروریزی کی دھمکیوں کے بعد بہت سے صحافی ترکی سے چلے گئے ہیں۔ کئی مزیدبھی ترکی چھوڑنے والے ہیں جو ترکی سے باہر اپنا کام جاری رکھنے پر سوچ رہے ہیں۔
گذشتہ جمعہ کو حزب اختلاف کی ریپبلکن پیپلز پارٹی نے ایردوآن نے ترک صحافیوں کے حقوق کی پامالیوں کی ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی تھی۔
رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران کم از کم 19 صحافیوں ، ادیبوں اور پبلشروں اور دیگر علمی اور ادبی شخصیات کو مختلف ادوار کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ حکام نے کم از کم 16 صحافیوں کو گرفتار کیا جنھیں ابھی تک سزا نہیں سنائی گئی۔ کم سے کم 52 صحافیوں کو ان کی رہائی سے قبل محدود مدت کے لیے حراست میں لیا گیا تھا۔