مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر کے قتل پر سوالات کی بازگشت

Benazir Bhutto

Benazir Bhutto

تحریر : ایم آر ملک
میر مرتضیٰ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل پر ایک پاکستانی کے محسوسات کی کیفیت کو جاننے کیلئے ہمیں کسی طور رسمی منطق کی ضرورت نہیں ایک ایسی منطق جس میں ہمیں ہمہ اقسام جواب کیلئے ہاں ہاں ،نہ نہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ہر چیز کا علیحدہ علیحدہ ،ساکت و جامد انداز میں مطالعہ کرتی ہے۔

مشرف نے27دسمبر2007سے پاکستانی عوامی حلقوں میں زیر گردش حقائق کو زبان دی ،ایک اضطراب ،ہلچل ،بے چینی میر مرتضیٰ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی دو بڑی اموات کے بعد ایک نہ ٹوٹنے والے تسلسل کی شکل میں ہمارا پیچھا کرتی رہیں مگر مفادات کی پچ پر کھڑے سکھر کے میٹر ریڈر جیسے غیر سیاسی ایکٹر بمبینو سینما کی ٹکٹیں بلیک میں بیچنے والے زرداری کو ہیرو بنا کر پیش کر نے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں حقائق کی دیوار میں نقب لگانے میں آج بھی بری طرح ناکام و نامراد ہیں۔

شہر قائد میں تین تلوار چوک اور لیاقت باغ میں بھٹوز کے بہتے لہو کی خاموش سر سراہٹ نے جس طرح ایک عام پاکستانی کے ذہن اور شعور کو جھنجھوڑا حالات کے کینوس پر اُس کی بازگشت باقی ہے اس خونی وار کی انگلیاں ”سیاست کے نام نہاد ڈاکٹر ”کی طرف اُتھ رہی ہیں مصالحت (Reconciliation)اور مفاہمت کی تھیوری کے ستونوں پر کھڑی جمہوریت کا فرسودہ سیٹ اپ لڑکھڑا رہا ہے یہ ایک عجیب و غریب نظریاتی ابہام ہے کہ ضیائی آمریت کی چھتری تلے 85کا الیکشن لڑنے والے حاکم زرداری کے پوتے کو جعلی بھٹو بنا کر ایک بڑی عوامی جماعت کی راسیں تھما دی جائیں۔

کیا ہم اس ادراک سے عاری ہو جائیں کہ زرداری کے سارے حواری ٹھیکوں اور پرمٹوں سے لیکر ”کارپوریٹ ورلڈ ”کا ہر جرم بے دریغ وحشت سے جاری رکھے رہے ؟اویس مظفر ٹپی سے لیکر ایان علی ،ڈاکٹر عاصم تک ایک طویل فہرست وقت کے ہاتھوں نے تھام رکھی ہے کیا اس سچ پر کراس کا نشان لگایا جاسکتا ہے کہ 22کروڑ انسانوں نے آمرانہ جمہوریت اور دھاندلی زدہ انتخابات کو ذہنی اذیت میں برداشت کیا ؟بھٹو کی پارٹی کے سیاسی افق پر ایک خلا واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے جو کسی جعلی بھٹو کے کھوکھلے نعروں یا لفاظی سے پر نہیں کیا جاسکتا مفاہمت کی سیاست پر چلنے والا سرکس اپنا آخری شو دکھا چکا کیا سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں بھٹو کے نظریاتی ووٹروں کی جانب سے جعلی قیادت کے خلاف نفرت کا اظہار اُن کے بلند شعور کی غمازی نہیں۔

20ستمبر کے یوم سیاہ کو لاڑکانہ کے لفافہ صحافیوں نے جس طرح روپوش کرنے کی ناکام کوشش کی اُس نے نواب شاہ کی ایک عورت کے رعونت زدہ چہرے سے نقاب اُتار پھینکا ایک کروڑ میں بکائو اور ضمیر فروش میڈیا کے ہاتھوں سندھ کے لاکھوں جیالوں کے جذبات کو کچلنے کی ناکام واردات کی گئی۔

بدین کے ذوالفقار مرزا کے اس سوال سے نکلنا مشکل ہے کہ محمد خان چاچڑ نے محترمہ بے نظیر بھٹو پر گولیاںچلائیں اور بے نظیر کے قتل کا پیغام جاوید شاہ جو آصف علی زرداری کا ڈاکٹرتھا وہ لیکر آیا تھا محمد خان چاچڑ کے ساتھ ایک شخص ”سلو ”تھا جو گاڑی چلا رہا تھا اُس کو بعد میں جنوبی افریقہ میں قتل کر دیا گیا۔

کیا یہ بیانات سابق صدر کے موقف کو طاقت فراہم نہیں کرتے ؟محترمہ بے نظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم کیوں نہ کرانے دیا گیا اس کے پیچھے کونسی وجہ کار فرما تھی ؟محترمہ بے نظیر بھٹو آکسفورڈ کی پڑھی ہوئی تھیں ان کی وصیت میں گرائمر کی بے تحاشا غلطیاں بھی پرویز مشرف کی صداقت پر اپنی مہر ثبت کرتی ہیں جس وصیت کی بنا پر ساری پارٹی آصف زرداری کے ہاتھ میں آگئی لیاقت باغ میں جلسہ کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھیں کہ اچانک اُنہیں آصفہ کا میسج آیا کہ گاڑی سے باہر نکل کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دیں اس دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل ہو گیا آصفہ کو کس نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو میسج کرو کہ وہ گاڑی سے نکل کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دیں ؟
سابق صدر پرویز مشرف کی اس بات سے بھی اتفاق کئے بنا چارا نہیں کہ مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو کی موت سے نقصان ہوا لیکن ان کی موت سے کس کو فائدہ ہو یہ سوال توجہ کا متقاضی ہے ؟ خالد شہنشاہ کو عزیر بلوچ کے ہاتھوں کس نے قتل کرایا ؟بالکل اُسی طرح جس طرح ڈالر گرل ایان علی کے کیس میںایک محب وطن کسٹم انسپکٹراعجاز چوہدری کا قتل ہوا ؟

محترمہ بے نظیر بھٹو کے قافلے کا روٹ کس نے عین وقت پر تبدیل کرایا ؟ساڑھے 9 برس تک کورٹ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا کیس چلا مگر آصف علی زرداری ،بلاول زرداری یا ان کی بیٹیوں میں سے کوئی ایک فرد بھی ایک پیشی پر نہ گیا کیا محترمہ بے نظیر بھٹو اتنی لاوارث تھی ؟
وقت کی گرد دبیز ہوتی گئی اورمیر مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کے ہاتھوں پر چڑھے دستانے نہ اُتر سکے کہ جائے سانحہ پر 50منٹ تک مرتضیٰ بھٹو کے لاشے کو تڑپنے کیلئے کیوں چھوڑ دیا گیا اور جس گاڑی میں اسے ہسپتال لیجایا جارہا تھا اُسی گاڑی میں مرتضیٰ بھٹو کی کنپٹی پر گولی ماری گئی پھر کیسے مشرف کے ان خیالات کو بے پر کی سمجھا جائے کہ ”محترمہ بے نظیر اور مرتضیٰ بھٹو کو آصف زرداری نے قتل کرایا
سابق صدر مشرف کو بہادری کا طعنہ دینے والے نواب شاہ کے حاکم بلوچ کے بہادر بیٹے کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے کہ جب آپ کا وزیر اعظم گیلانی نظریں جھکائے مشرف کی صدارت تلے وزیر اعظم کا حلف اُٹھا رہا تھا تو اس وقت آپ کی دلیرانہ منطق کہاں کھڑی تھی ؟یا اینٹ سے ایبٹ بجانے کا بیان دینے والا دم دبا کر ایسے رفو چکر ہوا کہ اس وقت تک واپسی کی راہ نہ لی جب تک جنرل راحیل شریف ریٹائرڈ نہ ہو گئے۔

آخر میں ایک ادنیٰ سوال بھٹو کے نظریات کا پرچار کرنے والے ان ورکروں سے جو زرداری کے بیٹے کے جلسے میں ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ”کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہیںاگر اُن کا کوئی نظریہ بھٹو ازم کے ساتھ جڑا ہوا ہے تو بھٹو کے وارث مرتضیٰ بھٹو کے قاتل کا کھوج لگایئے بھٹو سے جڑے نظریات اس تحقیق کے متقاضی ہیں۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک