اسلام آباد (جیوڈیسک) سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی جانب سے حکومت کی جانب سے قائم خصوصی عدالت کی تشکیل چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق خصوصی عدالت کی تشکیل میں سپریم کورٹ کے کردار کو چیلنج کی بنیاد بنایا جائے گا۔ عدالت کی تشکیل کا نو ٹی فیکیشن جاری ہونے کے بعد درخواست دائر کی جائے گی۔
دوسری جانب اٹارنی جنرل منیر اے ملک کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کیخلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں اس لئے یہ معاملہ جلد نمٹ سکتا ہے۔ سپریم کورٹ میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ پرویز مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ چلانے کیلئے حکومت نے جونہی شکایت درج کرائی ایف آئی اے کو گرفتاری کا اختیار مل جائے گا تاہم سابق صدر کو خصوصی عدالت سے ضمانت پر رہائی کا حق حاصل ہوگا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت پرویز مشرف کو سزا بھی دے سکتی ہے اور انہیں بری بھی کر سکتی ہے۔ واضع رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمے کی سماعت کے لئے حکومت نے 3 رکنی خصوصی عدالت تشکیل دیدی ہے۔
تین رکنی عدالت کی سربراہی سندھ ہائیکورٹ سے جسٹس فیصل عرب کریں گے جبکہ دیگر دو ارکان میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس یاور علی اور بلوچستان ہائیکورٹ کی جسٹس طاہرہ صفدر شامل ہیں۔ خصوصی عدالت مقدمے کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں کرے گی۔ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کیخلاف آرٹیکل چھ کے تحت غداری کے مقدمے کی سماعت کیلئے پانچ ججوں کے نام حکومت کو بھیجے تھے۔
جن میں لاہور ہائیکورٹ سے جسٹس یاور علی، سندھ ہائیکورٹ سے جسٹس فیصل عرب، پشاور ہائیکورٹ سے جسٹس یحییٰ آفریدی، بلوچستان ہائیکورٹ سے جسٹس طاہرہ صفدر اور اسلام آباد ہائیکورٹ سے جسٹس نور الحق قریشی کے نام شامل تھے۔ سپریم کورٹ نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ ان پانچ ججوں میں سے خود ہی تین ناموں کا انتخاب کرے اور ان میں سے سینیئر ترین جج کو کورٹ کا سربراہ مقرر کیا جائے۔