اسلام آباد(جیوڈیسک)اسلام آباد سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے مشرف حملہ کیس کے دو مجرموں رانا نوید اور عامر سہیل کی سزائے موت ختم کردی ۔نظر ثانی درخواست کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی تھی ۔ سماعت کے دوران ملزمان کے وکیل ایڈوکیٹ کا موقف تھا کہ اپیل دائر کیے بغیر ہی فوج کے اپیلٹ ٹریبونل نے عمر قید کو سزائے موت میں بدل دیا۔
وزارت دفاع کے وکیل نے تسلیم کیا تھا کہ ملزموں کی سزا میں اضافہ غلطی تھی۔ وزارت دفاع کے وکیل نے اس بات کا اقرار بھی کیا کہ ملزمان کو عمر قید سے متعلق پہلے فیصلے سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا تھااور اسی دوران فوج کے ٹریبونل نیان کی سزا ،سزائے موت میں بدل دی۔ ملٹری کورٹ نے رانا نوید اور عامر سہیل کو سزائے موت کی سزا سنائی تھی۔ملٹری ٹرائل کورٹ نے رانا نوید کو عمر قید اور عامر سہیل کو بیس سال قید کی سزا سنائی جو برقرار رہے گی۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا تھا کیا آپ اپنے موکل کے کہنے پر یہ تسلیم کر رہے ہیں جس پر وکیل کا کہا کہ موکل کی ہدایت پر نہیں بطور وکیل بات کر رہا ہوں۔ سزا میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری ہی نہیں کیا گیا۔ اپیل کنندہ کی عدم موجودگی میں سزا پر عمل نہیں ہوا جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا آپ کے کہنے کا مطلب ہے۔
صرف سزا میں اضافے کا نوٹیفکیشن ہی جاری نہیں ہوا۔وزارت دفاع کے وکیل کا موقف تھا کہ ملزمان نے عمر قید کے خلاف اپیل دائر کی تھی جبکہ عدالت کے بار باراستفسارکے باوجود وزارت دفاع کے وکیل ملزمان کی طرف سے اپیل دائر ہونے کی تاریخ ریکارڈ سے ثابت نہ کر سکے۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا تھا کہ ملزم کو فیصلے سے آگاہ کیے بغیر اس کی طرف سے اپیل کی توقع کرنا آئین کے منافی ہے۔
فوج کے قواعد و ضوابط پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون سے بالاتر نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کورٹ مارشل کے بعد کسی بھی ملزم کو اس کے متعلق فیصلے سے آگاہ کرنا ضروری ہیجس کے بعد چالیس دن کے اندر اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔