تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری ترقی آمریتوں اور مارشل لاء ادوار میں زیادہ ہوئی ہو سکتا ہے یہ بات درست بھی ہو مگرہر فوجی ڈکٹیٹر کے دور میں ملک کانقصان بھی بہت زیادہ ہواہم تو ملک کو پٹڑی پر لاتے ہیں مگر سویلین اس کو پٹڑی سے اتاردیتے ہیںایسی باتیں بیرون ملک بیٹھا وہ ڈکٹیٹر کر رہا ہے جو کمر درد کے بہانے جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ پر بیرون ملک فرار ہو گیا تھا۔ملکی عدالتوں سے مفرور اور اشتہاری ملزم شخص جس نے سامراجیوں کے باپو امریکہ کی ایک کال پر اپنے کسی بھی ساتھی جنرل سے مشورہ کے بغیر ہی اپنے ہوائی اڈے ہمسایہ اسلامی ملک افغانستان کے نحیف مسلمانوں پر زہریلے بم برسانے کے لیے دے ڈالے تھے جس پر امریکن خود حیران تھے کہ ان کے دیگر بھی تمام مطالبات اس نے من وعن تسلیم کر لیے ہیںجن کی انہیں قطعاً امید نہ تھی اب ملک میں جمہوریت کی گاڑی کو کوئی باہر بیٹھا آمر و ڈکٹیٹردوبارہ ڈی ریل کرنے کی مذموم کوشش کرے گا تو پاکستانی اس کا منہ تو ڑ جواب دیں گے۔ہماری پاک دلیر جری اور قربانیاں دینے والی افواج کے کسی سابق سربراہ کو ایسی باتیں ذیب نہیں دیتیں کہ آئین توڑنے کی سزا دفعہ چھ کے تحت موت ہی تو ہے۔جمہوری اقدار کو سبو تاژ کرنا جمہوریت کے منہ پر تمانچے کے مترادف ہے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹر ویو میں سامراج کی چھتری تلے چھپے عیاش ڈکٹیٹر مشرف کے یہ فرمودات کون سنے گا؟ انہیں کون پو چھے کہ آپ نے تو امریکنوں کے آگے چت لیٹ کر پاکستان پر نعوذ باللہ ایک بزدل ریاست کا ٹھپہ نصب کر ڈالا تھا؟
مشرف کے اقتدار کے دوران”کارہائے نمایاں”میں اکبر بگٹی کا بہیمانہ قتل، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ظالمانہ گرفتاری، لال مسجد پر زہریلی گیسوں سے حملہ کرکے 2000سے زائدقران پڑھتی اور حفاظ بچیوں کو بھسم کرکے ان کی لاشوں ،گوشت کے چیتھڑوں اور ہڈیوں تک کو گٹروں میں بہاڈالنا شامل ہیںپاکستانی اڈوںسے افغانستان پر کروائے گئے71ہزار حملے کیا وہاں ” القاعدہ “کی تلاش میں تھے؟طالبان کی حکومت وہی ہے جسے پاکستان نے تسلیم کیا تھا اور وہاں کا نظام وہ اسلامی اقدار کے مطابق احسن طریق پر چلا رہے تھے پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی ایمل کانسی اور سینکڑوں دوسرے “امریکن ملزموں”کوڈکٹیٹر نے سامراج کے سپرد ہی نہیں کیا بلکہ بیچ کر غیر ملکی بینکوں میں کروڑوں ڈالرز جمع کرائے سامراجیوں کا ایسا تابعدار اور غلام ایجنٹ شایدسابقہ اور آئندہ مسلمانوں کی ہزاروں سال کی تاریخ میں بھی نہ مل سکے گا۔ہم تو ایٹمی ملک ہیںایران نے تو ابھی اس پراسیس کی تکمیل نہ کی ہے اور وہ امریکہ کے مطالبات کو مکمل نظر انداز کرکے زندہ ہے۔
ہمارے کہنے نہ لگے تو تمہارا تورا بورا بنادیں گے جیسی محیر العقول سامراجی گفتگوئیں سن کر ہمارے نام نہاد کمانڈو نے بزدلی دکھا کر ان کی غلامی کو ترجیح دے ڈالی یہ واقعہ پاکستانی ریاست پر کلنک کا ٹیکہ ہے ویسے دیکھیں تو ناظم الدین نے تو گوادر کوخرید کر پاکستانی سرحدوں میں شامل کیا مگر ایوب خان نے بڈ بیر کے علاقے امریکنوں کو دے ڈالے سندھ طاس معاہدہ کرکے ہمارے دو دریا ہی بیچ ڈالے یحییٰ خان نے ذاتی طور پر مزید مقتدر رہنے کے لیے مغربی پاکستانی لیڈر سے سازباز کرکے ملک کو ہی دو لخت کرڈالا ضیاء الحق کے کارنامے بھی رہتی دنیا تک یاد رہیں گے۔
کلاشن کوف کلچر ،ڈرگ اسمگلنگ ،برادری ازم ،علاقائیت ،لسانیت کے بتوں کی ترویج بھی اسی دور میں ہوئی ملک دشمن خونی درندہ اور کراچی پر دہشت گردی سے قبضہ کرنے والا الطاف حسین بھی اسی کا پالتو بچہ تھا۔اپنا کلہ مضبوط رکھنے کے لیے ایم این ایز و ایم پی ایز کونقد کروڑوں رقوم دے ڈالنے کا رواج بھی اسی نے ڈالا۔مشرف نے تو دعویٰ کیا تھا کہ بینظیر اور نواز شریف پاکستان میں داخل نہیں ہوسکتے پھر اندر ونی بزدلی غالب آگئی محترمہ اور اپنی پسندیدہ ایم کیو ایم کے تمام مقدمات یکمشت این آر او کے ذریعے ختم کرڈالے ہزاروں قاتل تک رہا ہوگئے جو آج تک کراچی کو دوزخ بنائے ہوئے ہیں۔
محتر مہ واپس آگئیں تو نواز شریف کو بھی روکا نہ جاسکا اوران کی وردی جس کووہ اپنی کھال قراردیتے تھے اتر کر رہی۔اور پھر صدارت پر قبضہ بھی چھوڑنا پڑگیا کہ خدا کی طاقت کے سامنے کسی کا بس نہیں۔ محترمہ کو تو پنڈی کے جلسہ عام کے بعد دشمنان کی پلان سے اگلی دنیا کو سدھار جانا پڑا۔ اب آخری ڈکٹیٹر سامراجیوں کے تحفظ میں بیرون ملک براجمان کمر درد کے باوجود ڈانس کرتا پھرتا ہے اس نے خود بتایاتھا کہ میں اور میرے بزرگوار گانے بجانے اور ڈانس کی محفلیں منعقد کیا کرتے تھے اسی لیے اب بھی اپنی بیرون ملک رہائش کو عیاشی کا سینٹربنائے ہوئے ہیں۔وہ ہذماسٹرز وائس بنے کبھی کبھار پاکستان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔