مشرف کی بیرون ملک روانگی۔۔ قصہ کیا ہے

Musharraf

Musharraf

تحریر : عبدالرزاق
میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں جیسے قول کے خالق سابق صدر پاکستان پرویز مشرف بیرون ملک پرواز کر گئے ۔ اپنے آپ کو بہادری اور شجاعت کی علامت سمجھنے والے پرویز مشرف عدالتی کھینچا تانی ،عوام میں عدم پذیرائی اور والدہ محترمہ کی بیماری کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے خلاف قائم مقدمات کا سامنا کرنے کی بجائے وطن چھوڑ گئے ۔ یاد رہے پرویز مشرف کو جب مسند اقتدار سے محروم ہونا پڑا تو وہ اپنی عوامی مقبولیت کے حوالے سے بہت پر اعتماد تھے ۔ اس خوش فہمی یا غلط فہمی نے انھیں مقدمات کا سامنا کرنے پر مجبور کیا ۔ پرویز مشرف کا خیال تھا کہ جب وہ اپنی سیاسی جماعت کا اعلان کریں گے اور اس پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کریں گے تو سیاست دانوں کے علاوہ انھیں عوام میں بھی بھر پور پذیرائی ملے گی اور چونکہ وہ خود اقتدار پر براجمان رہے تھے۔

لہٰذا پاکستان کی معاشی حا لت کا بھی انھیں بخوبی علم تھا ان کی سوچ تھی کہ ابترمعاشی حالات کی وجہ سے جلد ہی عوام حکمرانوں سے تنگ آجائیگی اور ان کے دور حکومت کو یاد کرنے لگے گی اور ان حالات کے جنم لینے کے بعد وہ اک مرتبہ پھر حکمرانوں کو سیاسی چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے لیکن حالات و واقعات ان کی سوچ و خیال سے یکسر برعکس رہے ۔ اگر چہ نواز شریف حکومت عوامی توقعات پر پورا اترنے میں تو ناکام رہی لیکن ملکی حالات کی نزاکت اس نہج کو بھی نہ پہنچ پائی کہ عوام پرویز مشرف کو یاد کرتے اور ان کے لیے ایک مرتبہ پھر مسند اقتدار کی راہ ہموار ہوتی ۔ ایک جانب تو پرویز مشرف کی تدبیر کارگر ثابت نہ ہوئی تو دوسری جانب مشرف کی صحت بھی خراب رہنے لگی اور دل کے عارضہ میں مبتلا ہونے کی وجہ سے صحت بھی قابل رشک نہ رہی ۔اس سبب وہ عدالتوں کا سامنا کرنے میں بھی دقت محسوس کرنے لگے اور با لآخر انہوں نے ہتھیار پھینک دئیے اور بیرون ملک روانگی میں ہی عافیت سمجھی۔

پرویز مشرف کا دور حکومت کئی حوالوں سے یاد گار ہے ۔ اسی دور حکومت میں نائن الیون جیسا سانحہ رو نما ہوا اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کا کھلم کھلا آغاز ہوا ۔ پاکستان نے امریکی گائیڈ لائن پر عمل شروع کر دیا اور نتیجے کے طور پر ہم دہشت گردی جیسے عفریت کی گود میں چلے گئے ۔ پرویز مشرف نے جہاں اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کو فروغ دیا وہیں صوبہ بلوچستان کی سر زمین پر ایسا اقدام اٹھایا جس کے منفی نتائج ابھی تک ریاست پاکستان بھگت رہی ہے۔

Akbar Bugti

Akbar Bugti

نواب اکبر بگٹی جو صوبہ بلوچستان کے ایک اہم اور قد آور سیاستدان تھے ۔ ان کو جس بے دردی سے راستے سے ہٹایا گیا اس کے نتیجے میں بلوچستان میں عوامی بے چینی اور اضطراب کی لہر نے جنم لیا اور بیشتر بلوچ قبیلوں کی سوچ یکسرتبدیل ہو گئی ۔ ان میں سے کئی بلوچ رہنما علیحدگی پسندی کی جانب راغب ہو گئے ۔ بلوچوں کی بہت بڑی تعداد اب بھی بیرون ملک مقیم ہے جن کی پشت پناہی ہندوستانی خفیہ ایجنسی را کررہی ہے جو یقینی طور پر پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کے حوالے سے منفی عمل ہے ۔ اگرچہ موجودہ عسکری قیادت کی ہوشمندی کے طفیل ان میں سے کچھ بلوچ جوانوں نے ہتھیار پھینک دئیے ہیں اور و ہ قومی دھارے میں شامل ہو چکے ہیں لیکن اب بھی قابل ذکر تعداد میں بلوچ علیحدگی پسندی جیسی ناپسندیدہ سوچ کے حامل ہیں۔

پرویز مشرف کے دور حکومت میں ہی لال مسجد جیسا دل سوز واقعہ ر ونما ہوا ۔ مسجد کو انسانی خون سے نہلا دیا گیا ۔ تدبر و تحمل جیسے اوصاف سے عاری اس اقدام کا نقصان اب تک ملک و قوم بھگت رہے ہیں ۔ یہ وہ دور تھا جب مشرف مکے لہرا لہرا کر اپنی طاقت کا احساس دلاتے تھے ۔ قانون کی پامالی اور ایمر جنسی کے نفاذ جیسے حکم صادر کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ۔ تب موصوف اس قدر طاقتور حکمران تھے کہ مصاحب اور حاشیہ بر دار سو مرتبہ بھی وردی میں صدر منتخب کرنے کو تیار تھے لیکن آسمان بھی کیا کیا رنگ بدلتا ہے مشرف اس حقیقیت سے ناواقف تھے۔

آج پرویز مشرف چپکے چپکے اور میڈیا کی نظروں سے بچتے بچاتے بیرون ملک سدھار گئے ۔ انھیں اپنی بڑھکیں یاد رہیں اور نہ ڈرنے ورنے والا قول ان کا راستہ روک سکا ۔ سچ تو یہ ہے کہ سپریم طاقت صرف خدا کی ذات ہے ۔ وہ کسی کی محتاج ہے نہ کسی کی دست نگر ۔ وہ ہی سب سے طاقت ور ہے جبکہ دنیاوی حکمران زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر محتاج اور بے بس ہو جاتے ہیں چونکہ انسانی زندگی غموں اور خوشیوں کے درمیان رقص کرتی رہتی ہے کبھی خوشیوں سے دل کا گلزار کھل اٹھتا ہے تو کبھی غموں کی آندھی چلنا شروع ہو جاتی ہے لیکن انسان نادان ہے جب وہ طاقت کے نشے میں مخمور ہوتا ہے تو وہ اپنے جاہ و جلال ، رعب و دبدبہ اور شان و شوکت کو قائم رکھنے کے لیے ایسے ایسے اقدامات اٹھاتا ہے جو صرف اور صرف اس کے ذاتی مفادات کے نگہبان ہوتے ہیں اور عوامی فلاح و بہتری اور رائے کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے۔

Pride

Pride

خود غرضی کی چادر اوڑھ کر اور غرور کے جہاز پہ سوار ہو کر دوسرے انسانوں کو کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر سمجھنے لگتا ہے لیکن جب زندگی کا پینڈولم شہرت و اقتدار کی جانب سے زوال کی طرف محو سفر ہوتا ہے تو انسان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ۔ تکبر ، غرور اور رعو نت کا خمار سمندری جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے ۔ انسان کے ہاتھ صرف پچھتاوا رہ جاتا ہے اور وہ کف افسوس ملتا رہتا ہے اور دل میں محو خیال رہتا ہے کہ کاش اسے دوبارہ موقع مل جائے جو کچھ وہ کھو چکا ہے دوبارہ مل جائے لیکن اس فانی دنیا میں دوبارہ موقع ملنا مشکل امر ہے ۔ لہٰذا حکمرانوں کو اقتدار کے مزے لوٹتے وقت ہمہ وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ یہ لمحات عارضی ہیں ۔ پلک جھپکتے گزر جائیں گے اور اگر کچھ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا تو وہ ان کے وہ مثالی کارنامے ہیں جو وہ اپنی عوام کی فلاح و بہتری کے لیے انجام دیتے ہیں۔

اگر حکمرانوں کی ترجیح عوامی فلاح ہو گی تو ایسے حکمرانوں کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور اگر ان کا ہر قدم اپنے ذاتی مفادات کے گرد گھومتا دکھائی دے گا اور ان کا ہر فعل ذاتی دلچسپی کا آئینہ دار ہو گا تو عوام ایسے حکمرانوں کو دھتکار دیا کرتی ہے اور پھر انھیں چپکے چپکے پتلی گلی سے نکل کر بیرون ملک محو پرواز ہونا پڑتا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزار میاں برادران جلا وطن تھے سر زمین پاکستان کی قدم بوسی کو ترس رہے تھے بیچارگی اور بے بسی کی تصویر تھے اب ویسی ہی بے بسی کا شکار پرویز مشرف دکھائی دیتے ہیں ان کے دماغ سے اقتدار کا نشہ ہرن ہو چکا ہے او وہ سبق آموز شخصیت کا روپ دھار چکے ہیں۔

موجود حکمرانوں کو اپنی اور مشرف کی زندگی کے عروج و زوال سے سبق سیکھنا چاہیے ۔ اللہ تعالی نے تیسری مرتبہ حکمرانی کا موقع عطا کیا ہے اس سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے عوامی خدمت کے ریکارڈ قائم کرنے چاہییں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ حکومتی اقدامات سے دکھائی کچھ ایسا دیتا ہے کہ حکمران یہ باری بھی ضائع کرنے کے موڈ میں ہیں ۔ وہی انداز ، وہی طو ر اطوار اور وہی طرز حکومت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ وطن عزیزکے شب و روز بھی روائتی جمود کا شکار ہیں ۔ کوئی تبدیلی رونما ہوئی نہ ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔ وہی کشکول ، وہی قرض ، وہی دستگیر ادارے اور مشیروں ، وزیروں اور کارندوں کے لچھن بھی وہی ۔تبدیلی آئی ہے تو اتنی سی کہ عوام کی زندگی مزید روبہ زوال ہے ۔ حکمرانوں سے گذارش ہے کہ اپنی اور مشرف کی داستان زندگی پر ہی اک بصیرت بھری نگاہ اٹھا کر دیکھ لیں ۔ سیکھنے ، سمجھنے اور کچھ کر گزرنے کا طریقہ ، قرینہ اور سلیقہ اس سبق آموز داستان سے ہی مل جائے گا۔

Abdul Razzaq

Abdul Razzaq

تحریر : عبدالرزاق