اسلام آباد (جیوڈیسک) پرویز مشرف کی نظر ثانی درخواست پر اعتراضات، سپریم کورٹ کا 14 رکنی بنچ آج سماعت کرے گا۔ سپریم کورٹ کا 14 رکنی بنچ غداری کیس کی سماعت روکنے اور 3 نومبر 2007 کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف پرویز مشرف کی نظر ثانی درخواست پر اعتراضات کی سماعت آج کرے گا۔
سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے وکلاء کی طرف سے دائر نظر ثانی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی نے 14 رکنی بنچ تشکیل دیا ہے۔ اس سے پہلے رجسٹرار آفس نے پرویز مشرف کی نظر ثانی درخواست 8 اعتراضات لگا کر واپس کر دی تھی۔
اس کے خلاف اپیل کی سماعت جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے چیمبر میں کی اور تکنیکی اعتراضات دور کر نے کی ہدایت کی جب کہ ججز کے بارے میں توہین آمیز نامناسب زبان استعال کرنے، نظر ثانی خارج ہونے کے بعد نظر ثانی کی درخواست کے ناقابل سماعت ہونے سمیت دیگر اعتراضات اور پرویز مشرف کا غداری کیس میں ٹرائل روکنے سے متعلق درخواست کی سماعت کھلی عدالت میں کرنے کا حکم دیا تھا۔
سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 14 رکنی بنچ نے سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کیس میں متفقہ فیصلہ دیا تھا جس میں جنرل ریٹائر پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کر نے کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ 2009 میں دوران سماعت دو مرتبہ پرویز مشرف کو نوٹس دیا گیا لیکن وہ یا ان کا کوئی وکیل عدالت میں پیش نہ ہوا جس کے بعد سپریم کورٹ نے 31 جولائی کو اس اہم مقدمے کا متفقہ فیصلہ سنایا جس میں پرویز مشرف کے اقدامات کو غیر آئینی اور انہیں غاصب بھی قرار دیا گیا۔
اسی فیصلے میں عبدالحمید ڈوگر کی بطور چیف جسٹس پاکستان تقرری کو بھی غیر آئینی قرار دیا گیا اور عبدالحمید ڈوگر کی مشاورت سے تعینات ہونے اور پی سی او کا حلف لینے والے ججز کی تقرریاں کالعدم قرار دی گئیں، جسٹس سرمد جلال عثمانی کو بھی اس فیصلے کے باعث سپریم کورٹ سے واپس سندھ ہائیکورٹ جانا پڑا تھا۔ 31 جولائی 2009 کو متفقہ فیصلہ دینے والے سپریم کورٹ کے 14 ججز میں سے چیف جسٹس سمیت 10 ججز ریٹائر ہو چکے ہیں، باقی جو چار ججز تھے ان میں سے جسٹس تصدق حسین جیلانی اب چیف جسٹس پاکستان ہیں جب کہ جسٹس ناصر الملک، جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس سرمد جلال عثمانی بنچ کے ارکان ہیں۔