اسلام آباد (جیوڈیسک) سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت آج پھر ہو گی۔ مشرف کل خصوصی عدالت میں پیش ہوگئے تاہم وکلاء صفائی کے اعتراضات کے باعث فرد جرم عائد نہ کی جا سکی۔ عدالت نے معاملہ اپنے اختیار سماعت کے خلاف درخواستوں پر فیصلے سے مشروط کر دیا، ملزم کی آئندہ پیشی کے احکامات جاری کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ 21 فروری تک موخر کر دیا گیا۔
اویس یوسف زئی کی رپورٹ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں ہائی کورٹ کے تین ججز پر مشتمل خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس کی 23ویں سماعت کی۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پہلی مرتبہ بطور ملزم خصوصی عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ قانون کے مطابق ملزم کی حاضری پر فرد جرم عائد ہونا ہے۔
ایک آپشن یہ ہے کہ عدالت پرویز مشرف کو ان پر الزامات پڑھ کر سنا دے اور مزید کارروائی کو فی الحال روک دیا جائے۔ ملزم پرویز مشرف کے وکیل انور منصور نے اصرار کیا کہ عدالتی اختیار سماعت پر فیصلے تک ملزم پر فرد جرم عائد نہ کی جائے ورنہ یہ تاثر ملے گا کہ عدالت نے پہلے ہی طے کر رکھا ہے کہ اسے اختیار سماعت حاصل ہے۔
انور منصور خان ایڈووکیٹ نے پرویز مشرف کی آمد سے پہلے یہ دلائل بھی دیے کہ مقدمہ فوجی عدالت منتقل کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں 1977 کی ترمیم پارلیمنٹ کا اقدام تھا جو آج بھی موثر قانون ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ کی دلیل کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی سویلین بھی آئین کی پامالی کرے تو اس کا مقدمہ بھی فوجی عدالت میں چلے گا۔
انور منصور نے کہا کہ قانون یہی کہتا ہے مگر وہ اس وقت کسی سویلین کا دفاع نہیں کر رہے، 3 نومبر کے اقدام کے وقت پرویز مشرف فوجی وردی میں تھے، ان پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔ عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ اسے اختیار سماعت ہے تو پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے ملزم کی طلبی کے احکامات 21 فروری کو جاری کیے جائیں گے۔