اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ سنگین غداری کیس میں ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کا ٹرائل تفتیش مکمل ہونے کے انتظار میں نہیں روکا جاسکتا، توقع ہے کہ خصوصی عدالت جلد ٹرائل شروع کرے گی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود اور ایڈہاک جج جسٹس طارق پرویز پرمشتمل بنچ نے سابق جج عبدالحمید ڈوگر کی خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل منظور کر لی اور خصوصی عدالت کا سنگین غداری کیس میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز، سابق جج عبدالحمید ڈوگر اور سابق وزیر قانون زاہد حامد کا بطور شریک ملزم بیان ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کالعدم کر دیا۔
14صفحات پر مشتمل متفقہ فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا، عدالت نے قرار دیا ہے کہ سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت یا اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ سنگین غداری کیس کی تازہ تفتیش میں کسی کو نامزد کرے، یہ اختیار قانون کے تحت صرف وفاقی حکومت کا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید قرار دیا کہ خصوصی عدالت کے ایکٹ 1976 میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں کہ وہ تفتیش کےمکمل ہونے یا ترمیم یا اضافی چالان کے انتظار میں ملزم کے خلاف مقدمے کی کارروائی روک دے، سنگین غداری کیس میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت سے جلد ٹرائل شروع کرنے کی توقع کرتے ہیں۔
ذرائع نے جیونیوزکوبتایاہے کہ چیف جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی نےخصوصی عدالت کے سربراہ کے لیے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مظہر عالم میاں خیل کو نامزد کیا تاہم کئی ماہ گزرنے کےباوجود وفاقی حکومت نے ان کی تعیناتی کانوٹیفیکیشن جاری نہ کیا۔ دوسری طرف خصوصی عدالت نے 8مارچ کو سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے کی تاریخ بھی دے رکھی ہے۔