مشرف کیخلاف مقدمے کا حامی کون، مخالف کون؟ نئی بحث چھڑ گئی

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

اسلام آباد (جیوڈیسک)آئین شکنی کے جرم میں پرویز مشرف پر مقدمہ چلایا جائے یا انھیں چھوڑ دیا جائے، یہ معاملہ اس وقت پورے ملک میں موضوع بحث ہے، اس معاملے پر کس نے کی پہل اور کب کس نے کیا کہا؟ پرویز مشرف غداری کیس کے سلسلے میں بیانات کا سلسلہ عدالتی کارروائی سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔ مقدمے کے آغاز سے پہلے ہی احمد رضا قصوری نے کہا کہ اس مقدمے میں فوج کے دیگر اہل کاروں کو بھی ملوث کیا جائے ورنہ پرویز مشرف کو بھی چھوڑ دیا جائے۔

پرویز مشرف کے بین الاقوامی وکلاء اور حامیوں نے تو کیس میں اقوام متحدہ سے بھی مداخلت کا مطالبہ کر دیا اور امریکا اور برطانیہ سے کہا کہ گیارہ ستمبر دو ہزار گیارہ کے بعد مشرف کی حمایت کا بدلہ چکانے کا وقت آ گیا ہے۔ چھبیس دسمبر کو کیپٹل ٹاک میں بات چیت کرتے ہوئے احمد رضا قصوری نے کہا کہ وکلاء اور صحافی برادری کی طرح فوج بھی ایک برادری ہے۔

پچھلے سال تیس دسمبر کو انٹرنیشنل میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے پرویز مشرف نے کہا تھا کہ وہ یہ کہیں گے کہ ان کے مقدمے پر تمام آرمی اپ سیٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں جو فیڈبیک ملا ہے اس کے مطابق پوری پاکستانی فوج اس معاملے پر ان کے ساتھ ہے۔ رواں سال سولہ جنوری کو احمد رضا قصوری نے کہا کہ اگر پاک فوج کا سربراہ غدار ہو سکتا ہے تو پھر پوری قوم بھی غدار ہے۔

پانچ مارچ کو پرویز مشرف کے ایک وکیل نے ایک اور بات کہی جس میں خصوصی عدالت کے ججوں کا بھی ذکر ہوا۔ یہ انکشاف تھا یا تنبیہ، کوئی سمجھا، کوئی نہ سمجھا۔ پرویز مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت میں پیش نہ ہونے پر تنقید بھی کی جا رہی تھی، لیکن بیانات کی محفل میں گرما گرمی تب پیدا ہوئی جب مسلم لیگ ن کے دو وفاقی وزراء نے پرویز مشرف کو مرد کا بچہ بننے کا چیلنج دے دیا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستانی تاریخ کا یہ اہم مقدمہ عدالت میں ہی چلتا، لیکن لگتا یہ ہے کہ مقدمے کی یہ فلم سیاست کے میدان میں زیادہ ہٹ جا رہی ہے۔