تحریر : محمد ارشد قریشی بادشاہ گر کہلانے والی کراچی کی سیاست کافی عرصہ سے میوزیکل چئیرکے گرد گھومتی نظر آرہی ہے، تاحال چئیر کے گرد کھلاڑیوں کی گردش کا سلسلہ جاری ہے اور یہ فیصلہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کہ آخری چئیر جب رہ جائے گی تو اس پر کون براج مان ہوگا۔
اس وقت کراچی اور حیدرآباد پر تیس پینتیس سال مظبوط گرفت رکھنے والی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔پاک سرزمین پارٹی کے وجود میں آنے کے بعد سے جو ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ شروع ہوا تھا اس میں شدت بانی ایم کیو ایم کی بائیس اگست کی تقریر کے بعد مزید شدت آگئی تھی جو ہر آنے والے دن کے ساتھ مزید بڑھتی چلی جارہی ہے، 23 اگست کو ایم کیو ایم واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ایک گروپ نے اپنی شناخت ایم کیو ایم پاکستان سے کرانا شروع کردی تو دوسرے گروپ کو ایم کیوایم لندن کہہ کر مخاطب کیا جانے لگا 1992 ء کا آپریشن جسے پورے سندھ میں بڑی اور خطرناک مچھلیوں کو پکڑنے کے لیئے شروع ہونا تھا وہ صرف کراچی تک محدود کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے خلاف کردیا گیا جس کے شروع ہوتے ہیں ایم کیو ایم میں ایک گروپ بنا جو مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کے نام سے متعارف ہوا جس کے فوری بعد کراچی میں شدید خون خرابہ ہوا حقیقی اور مجازی کی خونی جنگ میں کراچی کے ہزاروں نوجوانوں کا قتل ہوا، کراچی میں ایم کیو ایم کے پہلے مئیر فاروق ستار اور ڈپٹی مئیر عبدالرازق خان کے دور میں جتنی صفائی ستھرائی ہوئی یا کراچی میں پارک اور چوارہے بنائے گئے وہ سب بھی اُسی خونی دور میں تباہ و برباد ہوگئے۔
کراچی کے لیئے ایک دوسرا دور جو قدرے بہتر ثابت ہوا وہ سید مصطفٰی کمال کے نظامت کا دور تھا جس میں کراچی میں بہت سے ترقیاتی کام شروع کیئے گئے یا پھر جماعت اسلامی کے مئیر نعمت اللہ خان کے دور میں شروع ہونے والے ترقیاتی کاموں کو مکمل کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی میں مثبت تبدیلی نظر آنے لگی مگر اس تبدیلی کو لانے میں ایک بہت اہم کردار سابق صدر پرویز مشرف کا بھی تھا جو اس وقت صدر پاکستان تھے۔ سید مصطفٰی کمال کے ایم کیو ایم سے الگ ہونے اور پھر کراچی آکر نئی جماعت پاک سر زمین پارٹی بنانے کے اعلان کے بعد کراچی کے شہریوں میں ماضی کا وہ خوف جنم لینے لگا کہ شائید ایک بار پھر ایم کیو ایم سے الگ ہونے والے گروپ اور ایم کیو ایم کے کارکنوں میں تصادم کی وجہ سے کراچی میں کشت و خون کا سلسلہ شروع ہوجائے گا لیکن خدا کا شکر کہ اس بار ایسا نہیں ہوا ۔
کراچی کی حالیہ تیزی سے بدلتی صورتِ حال جہاں اہل کراچی تذبذب کا شکار ہیں وہیں شہرِ کراچی بھی تباہی کی جانب جارہا ہے ۔ یہ شہر جو آزادی سے قبل ہی صفائی ستھرا ئی کے لحاظ سے دنیا کا صاف ستھرا شہر کہلاتا تھا بدقسمتی سے اب پورے پاکستان کا سب سے گندہ اور مسائل میں جکڑا شہر کہلانے لگا، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر، ابلتے گٹر، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، مکھی مچھروں کی بہتات،گندگی غلاظت سے پھیلتی بیماریاں، زہر آلود پینے کا پانی، سرکاری شفاخانوں کی حالتِ زار بدنما داغ بن گئے اس روشنیوں کے شہر کے لیئے۔ موجودہ مئیر کراچی نے جب سے اپنا عہدہ سنبھالا ہے اختیارات کا رونا روتے رہے ہیں جب کہ ایم کیو ایم پاکستان نے وسیم اختر کے عہدہ سنبھالتے ہی ہنگامی طور پر صفائی مہم شروع کرنے کا اعلان کیا جو سیکورٹی خدشات کی وجہ سے چند روز بعد ہے ختم کردیا گیا۔ مصطفٰی کمال کی قیادت میں بننے والی پاک سرزمین پارٹی نے کراچی میں صفائی اور دیگر عوامی مسائل کے حل کے لیئے پریس کلب کراچی کے باہر دھرنا دیا جس میں حکومتِ سندھ کو سولہ مطالبات پیش کرتے ہوئے مسائل کے حل ہونے تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا جو اٹھارہ دن جاری رہنے کے بعد ختم کردیا گیا۔
ایم کیو ایم پاکستان نے بھی مسائل کے حل کے واسطے ایک ریلی نکالی جو ریلی کی حد تک کامیاب اور پرامن رہی۔ اس کے بعد پاک سرزمین پارٹی نے کراچی میں ایف ٹی سی سینٹر سے کراچی کے مسائل کے حل کے لیئے ملین مارچ کا آغاز کیا ابھی یہ مارچ چند قدم ہی بڑھا تھا کہ پولیس نے اس علاقے میں ریڈ زون کی خلاف ورزی بتاتے ہوئے شرکاء پر شیلنگ کرتے ہوئے مصطفٰی کمال اور دیگر قائدین کو گرفتار کرکے کچھ دیر بعد رہا کردیا جس کی وجہ سے اس مارچ کا بھی خاتمہ ہوا۔
ان تمام تر صورتِ حال میں کراچی میں نہ ہی کوئی صفائی ہوئی اور نا ہی اس بد نصیب شہر کی قسمت بدلی بس سیاسی چپقلش میں اضافہ ضرور ہوا جو بدستور جاری ہے۔ سیاسی دھڑے بندیاں اور وفاداریاں تبدیل کرنے کا سلسلہ اب بھی عروج پر ہے۔ گذشتہ دنوں ایم کیو ایم پاکستان سے وابسطہ ڈپٹی مئیر ارشد وہرہ نے بھی ایم کیوایم پاکستان کو خیرباد کہتے ہوئے پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور جواز بتایا کہ وہ اب مزید عوام کا سامنا نہیں کرسکتے کیوں کہ وہ عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے، انہوں نے پریس کانفرنس میں جو اہم بات کی وہ یہ کہ ان کے پاس جو اختیارات موجود تھے اس میں بھی کام کیا جاسکتا تھا مگر وہ قیادت کے آگے مجبور تھے انہیں کام کرنے نہیں دیا گیا، ارشد وہرہ سیاسی جماعت کی تبدیلی کے بعداب بھی کراچی کے ڈپٹی مئیر ہیں اب دیکھنا ہے کہ قیادت کی تبدیلی کے بعد جن اختیارات میں بھی کام کرنے کا عندیہ انہوں نے پریس کانفرنس میں دیا تھا اب وہ کام کرتے ہیں یا اپنے عہدے کو بھی چھوڑ دیتے ہیں۔
اہلیان کراچی شدید غیر یقینی اور مایوسی کی کیفیت میں مبتلا انہی کرسیوں کی جانب نظریں مرکوز رکھے ہوئے ہیں جن کے گرد یہ سیاسی کھلاڑی گھوم رہے ہیں کہ کب میوزک بند ہوگا اور آخری کرسی کس کے حصے میں آئے گی۔ اس شہر کے باسیوں نے ایک وقت میں اسی شہر میں انہی جماعتوں کے قائدین پر مشتمل سیاسی جماعت کے وہ مناظر بھی دیکھے ہیں جب یہ تمام صرف ایک جماعت میں شامل تھے جب 80 کی دہائی میں ایم کیو ایم نے کراچی و حیدرآباد میں 14 اگست کو شایانَ شان طریقے سے تین روزہ جشن ِ آزادی منایا تھا جب کراچی کو دلہن کی طرح سجا دیا گیا تھا گلی محلوں میں گھی کے چراغ چلائے گئے وطن سے محبت کے وہ مناظر دیکھنے میں آئے تھے جس کی اس شہر میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسی دور میں کراچی سے عوام کے منتخب نمائیندے گلی محلوں میں جھاڑو لگاتے نظر آتے تھے علاقوں میں مرحلہ وار ہفتہِ صفائی منایا جاتا تھا سب سے زیادہ صاف ستھرا کرنے والے علاقے نمائیندگان کو انعام سے نوازا جاتا تھا ہر علاقے کے مکین صفائی ستھرائی میں دوسرے علاقے سے بازی لے جانے کے لیئے دل جان سے اپنے گلی محلوں کی صفائی کیا کرتے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اہلیانِ کراچی کو ایسے مناظر دوبارہ دیکھنے کو ملیں گے یا پھر وہ ہمیشہ ہی ماضی کا حصہ رہینگے۔