مسلمان ہی مورد الزام کیوں

Terrorists

Terrorists

تحریر : قادر خان یوسف زئی
پنجابی زبان کی بڑی معروف کہاوت ” آٹا گندھیاں ہِلدی کیوں ایں” ایسے موقعے پر کہی جاتی ہے جب کسی شخص نے دوسرے کو غلط ٹھہرانے کا ارادہ کر لیاہو اور اس کے لیے طرح طرح کے بہانے ڈھونڈےـ مثلا ایک شخص اپنی بیوی کو مارنے کے درپے تھا مگر کوئی خاطر خواہ عذر نہیں مل رہا تھاـ آخرِ کار یہ عیب نکال کر بے چاری کو مارا کہ”آٹا گندھیاں ہِلدی کیوں ایں”یعنی آٹا گوندھتے ہلتی کیوں ہو۔مسلمانان ِ عالم کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح ہورہا ہے ۔ نیویارک کے علاقے مینہٹین میں ٹرک حملہ آور ازبک مہاجر”سیفولو سائیپوو” کی دہشت گردی سے8 افراد کی ہلاکت کے بعدامریکہ سمیت مغربی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف ایک بار پھر سخت اشتعال انگیز ردعمل سامنے آیا ہے ۔حالاں کہ اسلام کا دہشت گردی سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر #allahuakbarکے ہیش ٹیگ ٹرینڈبنا کر دہشت گردی اور اسلام کوساتھ ساتھ جوڑنے کا غیر پسندیدہ رویہ دیکھنے کو ملا۔ بتایا گیا کہ امریکہ میں رہائش پزیر ازبک مہاجر” سیفولو سائیپوو” نے لوگوں کو ٹرک سے کچلنے کے بعد باہر نکل کر” اللہ اکبر” کا نعرہ لگایا تھا۔امریکی و مغربی ذرائع ابلاغ سمیت سوشل میڈیا میں” اللہ اکبر” کو لیکر اسلامک دہشت گرد کی گردان کوبذات خود انتہا پسندی قرار دیا جاسکتاہے۔ مغرب اسلام فوبیا میں کچھ اس طرح مبتلا ہوگیا ہے کہ اسلام کے حوالے سے انہیں کچھ بھی تنقید کے لئے مل جائے تو لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کرتے اور لٹھ لیکر تمام مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

مسلمان ایک دن میں پانچ وقت کی نماز میں کم از کم 111مرتبہ اللہ اکبر کہتا ہے۔ عام مسلمان دن بھر کئی مرتبہ اللہ اکبر کہتا ہے۔ امریکا میں ایک معروف تحقیقی مرکز کے مطابق60مسلم ممالک کے علاوہ 2070ء میں اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہوگا۔ امریکی ادارے Pew Research Center کی ایک رپورٹ میں توقع ظاہر کی گئی ہے کہ 2010 سے 2050 کے درمیان دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد میں تقریبا 73% اضافہ ہو جائے گا جب کہ اس دوران مسیحی مذہب کے پیروکاروں میں اضافے کی شرح 53% ہو گی۔سال 2010ء میں دنیا بھر میں 1.6 ارب مسلمان اور 2.17 ارب مسیحی تھے.. سال 2050ء میں مسلمانوں کی تعداد 2.76 ارب اور مسیحیوں کی 2.92 ارب ہو گی۔ اگر دونوں مذاہب کی شرح نمو اسی رفتار سے جاری رہی تو 2070ء میں مسلمانوں کی تعداد مسیحیوں سے زیادہ ہو جائے گی۔

ایک امریکی تھنک ٹینک پیو ریسرچ کے مطابق اس وقت مسلمانوں کی آبادی دنیا کی آبادی کا 23 فیصد ہے جو سنہ 2050 تک 30 فیصد تک پہنچ جائے گی اور دنیا میں ہر تیسرا شخص مسلمان ہو گا۔پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق اگرچہ اس وقت مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی انڈونیشیا میں ہے لیکن آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے اسلامی ملک پاکستان میں 2030 تک انڈو نیشیا سے بھی زائد مسلم ہونگے تاہم ایک اور اندازے کے مطابق 2050 تک انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی 30 کروڑ ہو جائے گی جو کہ کسی بھی ملک میں آباد مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد ہو گی۔واضح رہے کہ اس وقت دنیا میں عیسائیت سب سے بڑا مذہب ہے اس کے بعد مسلمان آتے ہیں اور تیسری سب سے بڑی آبادی ایسے لوگوں کی ہے جو کسی مذہب کو نہیں مانتے۔1.7ارب سے زائد مسلم آبادیوں میں اذان ، نماز کے علاوہ تلاوت کلام پاک اور بیت اللہ میں” اللہ اکبر” کی ہر وقت صدا گونجتی رہتی ہے ۔ دنیا میں کوئی ایسا لمحہ نہیں ہوگا جس میں رب کائنات کی تعریف توصیف اور بڑائی بیان نہ کی جا رہی ہو ، دنیا میں انسانی آباد ی کے تقریباََ ہرحصے میں” اللہ اکبر” کی گونج ضرور اٹھتی ہے۔ تو کیا “اللہ اکبر” کہنے والے1.7ارب سے زائد مسلمان دہشت گرد ہیں۔

مسئلہ یہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ ہے کہ آپ کی ہر اُس غلطی کو نظر میں رکھا جاتا ہے جو آپ سے دانستہ یا غیر دانستہ سر زد ہوجائے ۔ اگر مسلم ممالک میں فرقہ وارنہ خانہ جنگیاں ہو رہی ہیں تو اس میں بھی دونوں جانب سے اللہ تعالی کے نا م پر من پسند مذہب ، مسلک نافذ کرنے کیلئے بدست و گریبان اور پُر تشدد ماحول ہے۔ انتہا پسند اگر اپنے نا پسندیدہ مسلم ملک یا غیر مسلم ملک میں کوئی متشدد کاروائی کرتے ہیں تو بھی دنیا بھر کے مسلمانوںکو موردِ الزام ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر مسلک کے نام پر آپس میں باہمی گروہ دست و گریبان ہوتے ہیں تو بھی دنیا بھر میں مسلمانوں پر اِبَتلا کی گھڑی ہوتی ہے۔ اس تمام صورتحال میں جب امریکہ جیسے ممالک اسلام کے خلاف” مقدس جنگ” یا “بش ڈاکٹرائن” کے حصے دار بنتے ہیں تو پھر اُن کے نزدیک مسلمانوں کا کوئی بھی فعل ہو ،انہیں سرزشت کرنا فوبیا بن جاتاہے۔ اسلام ، انتہا پسندوں کی قبیح حرکتوں کے باوجود تیزی سے پھیلتا جارہا ہے اور اسلام کا مقدس پیغام” امن و سلامتی ” کو ہی پوری دنیا کی بقا کے لئے لازم و ملزوم سمجھا جارہا ہے۔ اسلام کی مخالفت میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب”قرآن حکیم”ہے۔

امریکہ سمیت یورپی ممالک میں قرآن کریم سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب عظیم ہے۔ جب اس عظیم کتا ب کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو مخالفین کو قرآن کریم سے صرف ۔ امن ، محبت، بھائی چارہ اور کامیاب نظام زندگی کے رہنما اصول و قوانین ہی ملتے ہیں ۔ کسی بھی مذہب کے خدا کو بُرا کہنے کی بھی سختی سے روکنے ہدایت ملتی ہے ۔ اقلیتوں ، خواتین کے ایسے حقوق کا تذکرہ ملتا ہے جس سے آج بھی ترقی یافتہ مغربی معاشرہ عمل پیرا نہیں ہے ۔ سائنس و کائنات کے اسرار ، تخلیق انسان کے مقاصد اور عالمگیر ریاست کے اصولوں پر تاقیامت محفوظ رہنے والی زندہ معجزاتی کتاب بڑے سے بڑے مخالف اسلام کو بھی دین اسلام کے نظام سے محبت کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ قرآن کریم کو رنگین عینک سے دیکھنے کے بجائے ایسے ہدایت الہی کا منبٰی قرار دیکر ، سمجھ کر ، غور و فکر کرکے پڑھا ، سمجھا اور پھر عمل کیا جائے۔اصولَ معاشرت کو بلا امتیاز رنگ و نسل ومذہب ہر فرد اپنا لے۔ اگرکسی کی غلطی کو ڈھونڈنے کے لئے بہانے تراشے جائیں اور جب کوئی بہانہ نہ مل سکے تو صرف اس بات پر کہ اس نے” اللہ اکبر” کا نعرہ لگایا تھا تو اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے اظہاریہ کی تمہید میں’کہاوت’ کی شکل میں بیان کیا گیا ہے۔جہاں تک انسانی تحقیق کا تعلق ہے ، دنیا کا کوئی آسمانی مذہب کسی بھی طرح انسانیت کو تاراج کرنا نہیں سیکھاتا ۔ اس کی تعلیمات میں تشدد کا پرچار نہیں ملے گا۔آسمانی مذاہب وکتب میں تحریف ، انسانی ہاتھوں احکام الہی میں تبدیلی اور واقعات میں غلو ضرور ملے گا ۔جس کی تصیح قرآن کریم کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے تمام مذاہب کے احترام میں تمام ابنیا و رسل کے علاوہ تمام آسمانی کتابوں پر ایمان اور ختم نبوتۖ کو فرض قرار دیا ہے اور قرآن کریم کی شکل میں تحریف اور انسانی سہواََ کی گئی غلطیوں سے مبّرا کتاب، بذریعہ وحی کائنات کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے نازل فرمائی کہ”اللہ کی رسی(قرآن پاک) کو مضبوطی سے تھام لواور تفرقہ میں نہ پڑو”۔اللہ تعالی کے اس عظیم پیغام پر عمل پیرا ہونے سے ہی دنیا میں تشدد کا خاتمہ اور امن قائم ہوسکتا ہے۔ اسلام فوبیا کے شکار اگر بہانوں بہانوں سے اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرتے رہیں گے تو اس کے نتائج مزید حوصلہ شکن نکلیں گے ۔ کسی شخص یا مخصوص نظریات کے حامل کسی انتہا پسند گروپ ، تنظیم یا جماعت کی کاروائی کو دنیا کے تمام مسلمانوں پر یکساںعائد کرنا مناسب عمل نہیں ہے۔ اسلام دہشت گردی کی ہر قسم کی شدت سے مخالفت کرتا ہے ۔ ایک عام انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت بچانے کو قرار دے والا دین امن کس طرح ، نہتے ، بے قصور انسانوں کے خلاف ہوسکتا ہے ۔” اللہ اکبر” کا اعلان اسی لئے ہر انسان کرتا ہے کیونکہ اُس کا اللہ صرف اس کا خدا نہیں بلکہ رب کائنات ہے۔

اگر اس وقت دنیاوی طاقت میں عدم توازن کا شکار ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھا جائے ۔ امریکا سمیت مغربی ممالک کو وہ وقت بھی یاد کرنا چاہیے کہ جب طاقت کا استعارہ مسلم حکمران ہوا کرتا تھا ۔ مسلم حکمرانوں نے اپنی قوت و سطوت و شجاعت کے بل بوتے پر کسی غیر مذہب کے زندگی کو اجیرن نہیں کیا بلکہ اسلام کے درخشاں اصولوں سے چھوٹے سے خطے سے پوری دنیا میں امن و سلامتی کے پیغام کو پھیلایا گیا ۔اسلام اگر تلوار کی قوت سے مسلط کیا جاتا تو دنیا میں اس وقت عیسائیت کے ماننے والوں کے تعداد سب سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ ہند میں مسلم حکمرانوں کے سینکڑوں برس تک حکومت کے باوجود ہندوازم آج بھی بڑا مذہب نہیں ہوتا ۔ اس لئے ہمارا ،آپ کا ،ہم سب اورکُل کائنات کا “اللہ”سب سے بڑا تھا ، سب سے بڑا ہے اور سب سے بڑا رہیگا۔غلطی کسی یا کیسی بھی ہو ، مسلمانوں پر” آٹا گندھیاں ہِلدی کیوں ایں” کے مصداق لٹھ لیکر پیچھے پڑنا مناسب نہیں۔

Qadir Khan Afghan

Qadir Khan Afghan

تحریر : قادر خان یوسف زئی