تحریر : رشید احمد نعیم علامہ اقبال ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک عظیم فلسفی، مفکر اور سیاسی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم شاعر بھی تھے۔ جو زندگی کا لطف اٹھانے کی بجائے قوم کی فکر مندی اور انقلاب برپا کرنے کے لئے شاعری کا سہارا لیتے تھے۔ اُن کا شمار اُن مسلم رہنمائوں میں سے تھا جن کی فکر اور نظریے نے برصیغر پاک و ہند کی حدود سے نکل کر پورے عالم اسلام کو متاثر کیا۔ اُس وقت تمام مسلمان یورپ کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ اس مایوسی کے اندھیرے میں علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نئی امید پیدا کی اور عملی راہ بھی دکھائی۔ علامہ اقبال نے مغرب میں جا کر تعلیم حاصل کی مگروہاں جا کر بھی اپنی شناخت برقرار رکھی، بلکہ مغرب کے خلاف فکری جنگ کا آغاز بھی وہیں سے کیا ۔علامہ اقبال فرماتے ہیں،یورپ میں روشنی آج علم و ہنر سے ہے۔
سچ یہ کہ بے چشمہ حیوان ہے یہ ظلمات ، جو قوم کہ فیضان ِ سماوی سے ہے محروم، حداس کے کمالات کی ہے برق و بخارات۔یہ ایک پرانی کہاوت ہے کہ آبِ حیات بحرِظلمات میں پایا جاتا ہے ۔علا مہ اقبال فرماتے ہیں کہ یورپ عالم ِ ظلمات تو ہے لیکن اس میں آب حیات نہیں ہے جس سے دلوں کو سکون اور اطمینان حاصل ہو۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ یورپ والے وحی کے علم سے محروم ہیں۔ اس لیے ان کی یہ ساری ذہانتیں لوہے ،جمادات اور برق و بخارات پر صرف ہو رہی ہیں۔انسان کو انسان بنانے کی طرف اُن کی کوئی توجہ نہیں ہے بلکہ ان کی ساری صلا حیتیں جمادات کو مختلف شکلیں دینے پر مرکوز ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ دورِحا ضر کے انسان کی صبح سے شام تک کی زندگی مشینی بن گئی ہے۔اُس نے پرندوں کی طرح اڑنااور مچھلیوں کی طرح تیرنا تو سیکھ لیا لیکن انسانوں کی طرح رہنا نہیں سیکھا۔
جب اقوام مغرب کا تسلط پوری دنیا پر چھایا ہوا تھا تو تب اقبال نے اپنے افکار کی بنیاد قرآن مجید کو بنایا اور امت مسلمہ کو یہ احساس دلایا کہ نجات کا ذریعہ صرف اور صرف قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہے اور ہماری رہنمائی و کامیابی بھی اسی میں ہے ۔علامہ اقبال نے فکروفن کے کئی جہاں تلاش کرتے ہوئے اپنا فلسفہ خودی پیش کیا۔ علامہ اقبال نے فرمایا جو قوم خودی کو پہچان لیتی ہے وہ کامیابی اور کامرانی کی منزلیں طے کرتی چلی جاتی ہے۔ اور خودی ہے کیا ؟خودی ایک فارسی کا لفظ ہے جس کے معنی ہیںشعور اور حد سے بڑا ہوا احساس ۔ اس کا ایک اور معنی بھی ہے تکبر یا غرور۔ ایک حدیث ِنبوی ۖکے مطابق ”جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے خدا کو پہچان لیا”۔
Allama Iqbal
اقبال نے کیا خوب کہا،یہ پیام دیگء ہے مجھے بادصبحگاہی ،کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام بادشاہی ۔اقبال کے فلسفہ میں خودی کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اگر خودی کے تصور کو سمجھ لیا جائے تو اقبال کی شاعری کو سمجھنا آسان ہوجائے گا ایک اور جگہ اقبال نے کہا ۔ خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ ،خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللّہ، کیا ہے تو نے متاع غرور کا سودا ،فریب شور و زیاں لا الہ الا اللّہ ،اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں ،مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللّہ ۔ علامہ اقبال کے نظریہ خودی سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ خودی خود حیات کا دوسرا نام ہے،خودی عشق کے مترادف ہے،خودی ذوق تسخیر کا نام ہے،خودی سے مراد خود آگاہی ہے،خودی ذوق طلب ہے،خودی ایمان کے مترادف ہے،خودی سر چشمہ جدت و ندرت ہے،خودی یقین کی گہرائی ہے،خودی سوز حیات کاسرچشمہ اور ذوق تخلیق کا ماخذ ہے۔
عام طور پر ہم خودی کا لفظی مطلب غروروتکبراور بڑکپن سے لیتے ہیں۔ لیکن اقبال کے نزدیک غیرت مندی کا حساس کرنا، خودداری کا جذبہ محسوس کرنا،اپنی ذات و صفات کا پاس و احساس کرنا،اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنا،حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنا،مظاہراتِ فطرت سے بر سر پیکار رہنا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کی بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا نام خودی ہے۔ اقبال کی نظر میںزندگی کا آغاز،وسط اور انجام سبھی کچھ خودی ہے۔ فردو ملت کی ترقی و تنزلی،خودی کی ترقی وتنزلی پر منحصر ہے۔خودی کا تحفظ زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام زندگی کااستحکام ہے،ازل سے ابد تک خودی ہی کی کارفرمائی ہے۔۔علامہ اقبال کی نظر میں لا الہٰ الا اللہ کا اصل راز خودی ہے۔
توحید،خودی کی تلوار کو آب دار بناتی ہے اور خودی،توحید کی محافظ ہے۔انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پرہے قوت و تربیت یافتہ خودی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی،خودی زندہ اور پائندہ ہو تو فقر میں شہنشاہی کی شان پیدا ہو جاتی ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے تصوف میں آ جاتا ہے ۔اقبال کا خیال ہے کہ انسان اطاعت، ضبط نفس، نیابت الہیٰ کی تین منزلیں طے کرتا ہوا خودی کی انتہا پر پہنچتا ہے۔ اقبال نے چار چیزوں پر زور دیا۔ اول، توحید جس پر چل کر انسان خوف اور مایوسی سے آزاد ہوتا ہے۔ دوسرا، رسول اکرم سے محبت۔ تیسرا، قرآن مجید کا مطالعہ اور پیروی کرنا۔ چوتھا، رجائییت یعنی مایوسی کو ترک کرکے ہمت اور جرات کی راہ اختیار کرنا۔ اقبال کہتے تاریخ میں وہی قومیں زندہ اور کامیاب رہی ہیں جو مسلسل جدوجہد اور عمل پر یقین کرتی ہیںعلامہ اقبال نے جس پاکستان کا خواب دیکھا اس کی تعبیرپانے کے لیے بہت محنت کی۔
Poetry
اپنی شاعری سے پوری قوم کو جگایا مایوسی کو ترک کرکے ہمت سے اپنی قوم کا ساتھ دیا اور ان کی شاعری سے بہت بڑے بڑے نام ور لوگوں کے دل سے مایوسی دور ہوئی اور سب نے مل کر پاکستان کے خواب کو تعبیر کیا۔ پاکستان کے خواب کی تعبیر کے حصول کے لیے ان کے ساتھ طلبا کا بھی بہت بڑا کردار رہا ۔بہت سی مشکلات سہہ کر بہت سا خون بہا کر یہ ملک پاکستان وجود میں آیا ۔ علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا اور قائد نے وہ خواب پورا کیا۔ میںاپنا شمار علامہ اقبال کے مداحوں میںکرتا ہوں اگرسچ پوچھیں تو میںاردو زبان سے اس وقت روشناس ہوا جب بچپن میں کتب میں کلام اقبال پڑھایا جاتا تھا۔اقبال کے الفاظ مجھے اپنی گرفت میں لے لیتے تھے۔اس میں ایک ایسا مدہوش کردینے والا جادو ہے کہ آج تک اس میں گرفتار ہوں۔ان کا ایک ایک لفظ اپنے اندر ایسی تڑپ رکھتا ہے جسے ادب کے دلداہ حضرات ہی محسوس کر سکتے ہیں اقبال ایک آفاقی شاعر ہیں ان کی شاعری سے پوری دنیا آج استفادہ کر رہی ہے۔
اقبال کی شاعری نسل ِنو کی ضرورت ہے اور اس کی فصیل ِ ذہن پر دستک ہے ۔جو احساس کے تاروں کوہلاتی اور رگوں میں خون کی گردش کو تیز کرتی ہے۔جذبات و خیالات کی دُنیا میں تلاطم پیدا کرتی اور لہجے میں بادلوں کی گرج اور بجلیوں کی سی تڑپ پیدا کرتی ہے،بازوئوں میں ہمالہ کو دُھنکنے کی سکت اورقدموں میں دریائے حوادث کو روند ڈالنے کی طاقت پیدا کرتی ہے۔اگر آج کا نوجوان اقبال کی شاعری میں پوشیدہ اس پیغام کو پڑھ لے جو اقبال شاعری کے ذریعے نوجوانوں کو دینا چاہتا ہے تو پورے اعتماد سے کہاجا سکتا ہے کہ اس کے دل کی دنیا بدل جائے گی، سوچ کے دھارے اور فکر کے زاویے بدل جائیں گے۔ روز و شب کے مشاغل اور ماہ و سال کی سر گرمیاں بدل جائیں گی۔
یہاں تک کہ ایک ایسے نوجوان کی بازیافت ہو گی جوبیان و اظہار کے کسی محاذ پر ناکام نہیں ہو گا۔ جو دل کی بات پورے اعتماد کے ساتھ زبان پر لا سکے گا۔جو پُرعزم بھی ہو گا اور پُروقار بھی۔باہمت بھی ہوگااور باعتماد بھی۔جس کے ہاتھوں قوم کا حال روشن اور مستقبل تابناک ہو گا جو اپنی قوم کا فخر اوراپنے ملک کا وقار ہو گا کیونکہ ترجمان ِ حقیقت،شاعرِمشرق حضرت علامہ محمداقبال نے اپنی شاعری کو قوم کی اصلاح کا ذریعہ بنایا۔آپ ہمارے قومی شاعر ہیں ۔آپ کے دل میںمسلمانوں کی بے پناہ محبت تھی۔مسلمانوں کی اخلاقی پستی اور سیاسی و معاشرتی زبوں حالی آپ کے لیے بہت دکھ کا باعث تھی اور آپ اس بات پر بہت پریشان رہتے تھے ۔ بہت کڑھتے تھے اس صورت ِ حال پر۔اس لیے آپ نے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کا فیصلہ کیا۔
Islam
نوجوانوں میں جوش و خروش پیدا کرنے کے لیے ولو لہ ا نگیز نظمیں لکھیں۔مسلمانوں کو ان کا شاندار ماضی یاددلایا۔اور ان کو اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی تلقین کی آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو اتحاد، اخوت، ہمدردیِ، محبت، عمل اور محنت کادرس دیا۔آپ نے مسلمانوں کوذلت و رسوائی کے عمیق گڑھوں سے نکلنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔مسلمانوں میں اسلام کی حقیقی روح پیدا کرتے ہوے ان میں آزادی کے حصول کی تڑپ ،طلب اور امنگ پیدا کی۔اقبال ایک سچے عاشق ِرسولۖ تھے۔ ان کا دل عشق ِرسولۖ سے لبریز تھا۔اقبال صرف ہمارے قومی شا عر ہی نہیںبلکہ ایک عظیم راہنما کا درجہ رکھتے ہیں۔مسلمانان ہند کی سیاسی بیداری میں ان کے خیالات و افکار کا بہت عمل دخل ہے۔نظریہ پاکستان سب سے پہلے اقبال نے ہی پیش کیا۔
اسی نظریہ کو مسلم لیگ نے اپنایا اور قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں کی ایک آزاد اسلامی مملکت ، اسلامی جمہوریہ پاکستان وجود میں آئی۔9نومبر1877کو پنجاب کے خوبصورت شہر سیالکوٹ میں شیخ نوراحمد کے آنگن میں آنکھ کھولنے والے اقبال نے بی۔اے۔اور ایم۔اے کے امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کیے۔
انگلستان سے وکالت اور جرمنی سے پی،ایچ،ڈی کی ڈگری حاصل کی۔برطانوی حکومت نے آ پ کی علمی اور ادبی خدمات سے متاثر ہو کر آپ کو ” سر” کا خطاب دیا۔قوم نے آپ کو حکیم الامت،شاعرِمشرق اور ترجمان ِحقیقت کے خطابات سے نوازا۔آپ 21اپریل 1938کواس دارِفانی سے رخصت ہو گئے۔آپ کا مزار اقدس بادشاہی مسجد کے صدر دروازے کے باہر ہے۔آپ کی وفات سے علم و ادب اور شاعری کی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا وہ آج تک پُر نہیں ہو سکا۔
Rasheed Ahmad Naeem
تحریر : رشید احمد نعیم ممبر کالمسٹ کونسل آف پاکستان [email protected] 03014033622