اُندلس، اسپین میں اسلامی سلطنت کا دور صدیوں پر محیط ہے، جس وقت دنیا جہالت کے اندھیروں میں غرق تھی،یورپ کیچڑ اور گندگی کا ڈھیراور علم وحکمت سے بے بہرہ تھا،اُس وقت اسلامی اُندیس میں فقہ و حدیث، طب و جراحت، ریاضی و کیمیااور آج کی جدید سائنسی علوم وفنون کی بنیاد ڈالی جاچکی تھی ،وہاں علم وحکمت اور صنعت وحرفت کے نئے باب کھل رہے تھے، اُندلس کے سینکڑوں کتب خانے لاکھوں علمی وتحقیقی کتابوں سے مزین تھے،اُس زمانے میں اندیسی مسلمان دنیاکی سب سے زیادہ تعلیم اور ترقی یافتہ قوم شمار ہوتے تھے اور یہ خطہ دنیا کا سب سے زیادہ زرخیز خطہ مانا جاتا تھا، جہاں سے دنیا جہاں کے تشنگانِ علم اپنی پیاس بجھاتے تھے،اسلامی اُندیس علم وفن،تہذیب وتمدن، سیاست ومعاشرت اور اخلاق وشائشتگی کا ایک ایسا گہوارہ تھا جس نے انسانی تاریخ پر اپنے اَنمٹ نقوش ثبت کیے،اُس دور میں اُندلس مختلف تہذیبوں اور قوموں کا سنگم تھا،جہاں باشندوں کو مذہبی، معاشرتی، ثقافتی اور فکری آزادی حاصل تھی۔
اُندیس کی اسلامی حکومت نے آٹھ سو سال میں کئی عروج زوال دیکھے،مگر1236ء میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب اندیسی مسلمان ” شمشیر وسناں کو ترک کرکے طاؤس و رباب” میں گم ہوگئے اور اُن کی باہمی نااتفاقی و چپقلش ،مذہبی منافرت اور لسانی و قومی تعصب کا فائدہ اٹھاکر فرڈنیارڈ نے اُندلس میں اسلامی اقتدار کا خاتمہ کردیا،وہ اُندلس جسے مسلم سپہ سالار طارق بن زیاد کی قیادت میں اسلامی لشکر نے فتح کیا تھا،ج ہاں آٹھ سو سال مسلمانوں نے حکومت کرکے اُسے پناہ ترقی دی اور علم و حکمت ،تہذیب وتمدن اور علوم و فنون کا ایسا مرکز بنایا،جس کی کرنوں نے یورپ سمیت موجودہ دنیا کے تمام خطوں کو منور کیا،وہاں سے اسلامی تہذیب و تمدن کے آثار اور مسلمانوں کے وجود کو ایسے مٹادیا گیا۔
جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں۔حسن ودلکشی،علم وادب،مروت ورواداری کے وصف سے آراستہ اُندلس پر جب اخلاق باختہ ،اُجڈ،تہذیب ناآشنا،کم ظرف اور تنگ نظر متعصب صلیبیوںنے قبضہ کیا توبے شمار مسلمانوں کا خون بہایا گیا،بچوں کا غلام بنایا گیا، مسلمان خواتین اور بچیوں کی حرمتیں، عزتیںاور عصمتیں پامال ہوئیں،لائبریریوں کو نیست و نابوداور لاکھوں کتابوں کو جلا کر خاکستر کیا گیا،مساجد اور خانقاہیں کلیساؤں میں تبدیل کردی گئیں،جبکہ لاکھوں مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کردیا گیا،جو بچ رہے انہیں جبراً عیسائیت اختیار کرنے ،خنزیر کا گوشت کھانے اور گلے میں صلیب لٹکانے پر مجبور کردیا گیا،یہ طرز عمل مغربی تہذیب کے ظلم و استبداد،متعصب رویئے ،عدم برداشت پر مبنی انتہا پسندانہ طرز فکر اور اسلام دشمن فکر کا عکاس اور اُندلس کی مسلم تاریخ کا سب المناک اور خونچکاں پہلو ہے۔
قارئین محترم !اُندلس کی تاریخ کا مطالعہ جہاں ہمارے اسلاف کے قابل فخر ماضی کے عروج کا اظہار ہے ،وہیں یہ ہمارے حال کی بدحالی کا نوحہ اور مستقبل میں بے مستقبل ہونے کا سامان عبرت بھی ہے،آج اُندلس میں اسلامی فن تعمیر کے چند ہی نادر شاہکار بچے ہیں،جنھیں دیکھ کر اغیاربھی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ جو قوم آج بدحالی ،بے یقینی اور جمود و خزاں کا شکار ہوکر بکھرے ہوئے ریوڑ کی مانند ہے۔
اُس کا ماضی کتنا روشن اور شاندار تھا،”قرطبہ کی جامعہ مسجد” لے کر غرناطہ میں آخری اسلامی حصار” الحمرائ” کے محلات تک آج اسپین جانے والے انہیں دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ کیسی قوم تھی” جہاں سے بھی گزری اپنی تہذیب وتمدن کے اَنمٹ نقوش چھوڑ گئی۔”تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ وہی جامع مسجد ہے جس کی تعمیر عبد الرحمان اوّل الداخل نے آٹھویں صدی کے اواخر میں میں شروع کی،یہ مسجد وادی الکبیر میں دریا کے پل پر اُس جگہ تعمیر کی گئی جہاں سینٹ ونسنٹ کا گرجا موجود تھا،جس کاکچھ حصہ مسلمان پہلے ہی بطور مسجد استعمال کر رہے تھے۔
Churches
چنانچہ عبدالرحمان اوّل الداخل نے بہت بھاری قیمت ادا کر کے باقی گرجا بھی عیسائیوں سے خرید لیا اور 754ء میںمسجد کی تعمیر کا کام شروع ہوا،یہ شاندار مسجد صرف دو سال کی قلیل مدت میں تیار ہوئی اور اِس کی تعمیر پر 80 ہزار دینار خرچ ہوئے ، یہ مسجد دنیا میں ”مسجد قرطبہ” کے نام سے مشہور ہوئی ، یوںعبدالرحمن اوّل الداخل نے اُندیس میں اسلامی فن تعمیر کے نادر شاہکار جامع مسجد قرطبہ کی بنیاد رکھی،جس کی چوڑائی ایک سو پچاس اور لمبائی دوسو بیس میٹر کے قریب تھی،اِس مسجد میں چودہ سو سے زائد ستون تھے۔
مسجد اتنی بڑی تھی کہ اگر کوئی دور سے دیکھتا تو اُس کی آخری حد نظر نہیں آتی تھی، مسجد کی صفائی ستھرائی کیلئے تین سو خادم مامور تھے،آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اُس زمانے کے تعمیراتی ماہرین نے مٹی کے بنے پائپوں کے ذریعے ٔ مسجد تک پانی پہنچانے کیلئے باقاعدہ پائپ لائین بچھائی تھی،یہ پانی مسجد کے اطراف میں پہاڑی چشموں سے نکلتا تھا، مسجد کے صحن میں بہت ہی خوبصورت فوارے نصب تھے۔
جامع مسجد قرطبہ کی دیواریں اِس قدر بلند تھیں کہ دور سے شہر کی فصیل کا گماں ہوتا تھا،مسجد کی چھت تیس فٹ کی بلندی پر تعمیر کی گئی تھی،جس سے ہوا اور روشنی کا بہتر نکاس ممکن ہوا،چھت کو سہارا دینے کیلئے کئی ستون تعمیر کئے گئے، اِن ستونوں کی کثرت سے مسجد میں خود بخود راستے بن گئے،ہر ستون پر دوہری نعلی محرابیں نصب کی گئیں جو بعد میں اُندلس کے فنِ تعمیر کا حصہ قرار پائی ، ہر دوسری محراب کو پہلی محراب کے اوپر ایسے نصب کیا گیا کہ وہ چھت سے جا ملی،چھت میں دو سو اسی ستارے نصب کئے گئے،وہ ستارے جو اندرونی دالان میں نصب تھے۔
خالص چاندی کے بنے ہوئے تھے،مسجد کے مرکزی ہال میں ایک بہت بڑا فانوس نصب کیا گیا ،جس میں بیک وقت ایک ہزار چراغ روشن ہو تے تھے،مسجد میں روشنی کیلئے استعمال ہونے والے چراغوں کی درست تعداد تو نہیں ملتی مگر ایک روایت بتاتی ہے کہ اِن کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد تھی،مسجد میں روشنی کا انتظام اِس قدر بہتر تھا کہ رات کے وقت بھی دن کا گماں ہوتا تھا۔
مسجد قرطبہ میں نصب ستون زیادہ تر اشبیلیہ، اربونہ اور قرطاجنہ سے منگوائے گئے تھے لیکن تعداد کم ہونے کی وجہ سے امیر عبد الرحمان اوّل الداخل نے بعد میں اندلسی سنگِ مر مر ترشوا کر ایسے ستون تیار کروائے،جنھیں سونے اور جواہرات سے مزین کیا گیا،اِن ستونوں نے مسجدکی تزئین و آرائش میں مزید اضافہ کردیا،یہ سارا کام نہایت نفاست اور ماہرانہ فنکاری کے ساتھ انجام دیا گیا۔
ابتداء میں مسجد میں نو دروازے نصب کئے گئے ،بعد میں اِن کی تعداد اکیس تک جا پہنچی، اِن میں سے تین دروازے شمال اورنو نو دروازے مشرق اور مغرب کی جانب تھے،مشرق اور مغرب کی جانب نصب دروازوں میں ایک ،ایک دروازہ صرف خواتین کیلئے مخصوص تھا، مسجد کے تمام درودیوار اور فرش کو خوبصورت پتھروں سے مزین کیا گیا تھا ،جبکہ چھت نقش ونگار اور مختلف چوبی پٹیوںسے آراستہ تھی، خاص دالان کے دروازہ پر سونے کا کام کیا گیا،اسی طر ح مسجد قرطبہ کی محراب جس سنگ مر مر سے تیار کی گئی وہ دودھ سے زیادہ سفید اور چمکیلا تھا، صناعوں نے اِسے ہفت پہلو کمرے کی شکل دے دی تھی ،جس کے اندر کی جانب سنگ تراشی کے ذریعے ٔخوبصورت گل کاری کا کام کیا گیا ،اُس کے سامنے کی طرف قوس کی شکل میںجو آرچ بنائی گئی تھی اُسے دونوں طرف سے دو ستونوں نے سہارا دے رکھا ہے۔
اِس محراب پرخوبصورت اور رنگین نقش ونگار بنائے گئے، جس کے گرد کوفی رسم الخط میں قرآنی آیات لکھی گئیں، مسجد کا منبر خوشبو دار قیمتی لکڑی کے 36ہزار ٹکڑوں سے بنایا گیا تھا،جنھیںجوڑنے کیلئے سونے اور چاندی کے کیلیں استعمال ہوئیں ،جبکہ مسجد کی دیواروں اور چھت پر خوبصورت خطاطی سے مزین قرآن مجید کی آیات مبارکہ کنندہ کی گئیں۔
اِس مسجد کی تعمیر آٹھویں صدی عیسوی میں شروع ہوئی اور آٹھ صدیوں تک ہر آنے والے مسلم حکمران نے مسجد کی تزئین و آرائش میں اپنا حصہ ڈالا تھا،غرضیکہ مسجد ایک خوبصورت شاہکار تھی، اِس کی خوبصورتی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں عیسائیوں کی اکثریت کے باوجود کبھی کلیسا بنانے کی حمایت نہیں کی گئی، عیسائی خود کہتے تھے کہ اگر یہاں کلیسا بنایا گیا تو مسجد کا حسن خراب ہو جائے گا،لیکن بعد میں آرچ بشپ نے اِس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے مسجد کے وسط میں کلیسا کی تعمیر کا حکم دیا،تعمیر مکمل ہونے کے بعد اُس نے جب مسجد کو دیکھا توتاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا” اگر مجھے معلوم ہوتا کہ مسجد اتنی حسین ہے تو میں یہاں کبھی کلیسا کی تعمیر کی اجازت نہ دیتا۔
اِس پرشکوہ مسجد کے نقوش آج بھی مسلم فن تعمیر کے اعلیٰ ذوق کی علامت اور اسپین میں مسلمانوں کی شاندار حکمرانی کا زندہ ٔ وجاوید حوالہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ آٹھویں صدی عیسویں میں تعمیر ہونے والی قرطبہ کی جامع مسجد اسلامی فنِ تعمیر کا ایک نادر شاہکار ہے،یہ دنیا کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے ،جسے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ قراد دیا ہے ،اِس مسجد کو دیکھنے کیلئے دنیا بھر سے ہر سال 14لاکھ سے زائد سیاح اسپین آتے ہیں۔
مگر سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ اب صدیوں سے یہ مسجد اپنے امام اور اُن مقتدیوں کی منتظر جو طاؤس رباب میں کھوگئے ہیں،مسجد کے بلند وبالا مینار صدیوں سے موذّن کی اذان کو ترس رہے ہیں،اُندلس میں مسلمانوں کے زوال کے بعددوسری مساجد کی طرح مسجد قرطبہ بھی عیسائی راہبوں کے تسلط میں آگئی، پندرھویں صدی میں مسجد کے وسط میں ایک کیتھولیک گرجا قائم کردیا گیا جہاں عیسائیوں کو عبادت کی اجازت ہے ،لیکن مسلمانوں کیلئے مسجد میں اذان دینے اورنماز کی ادائیگی پر آج بھی پابندی عائد ہے،1931۔ میں شاعر مشرق علامہ اقبال وہ پہلے فرد تھے
جنھوں نے آٹھ سو سال بعد قرطبہ کی جامع مسجد میں پابندی کے باوجود اذان دی، نماز ادا کی اورمسجد قرطبہ کے عنوان سے ایک خوبصورت نظم بھی کہی ،مگر اُن کے بعد مسجد پر پھر اُسی خاموشی کا راج ہے ، دسمبر 2006ء میں اسپین کے مسلمانوں نے پوپ بینڈکٹ سے اپیل کی تھی کہ انہیں جامع مسجد قرطبہ میں عبادت کی اجازت دی جائے ،مگر اُن کی درخواست مسترد کردی گئی۔
اِس وقت مسجد کی تاریخی عمارت ریاست کی ملکیت ہے لیکن اِس کا انتظام وانصرام مسجد کے وسط میں قائم گرجے کے ہاتھ میں ہے،المیہ یہ ہے کہ مسلم تاریخ کی اِس یادگار نشانی کو حکومت نے صرف 30یورو( یعنی 4ہزار 315روپئے) میں کلیسا ہاتھ فروخت کردیا ہے، ملکی قانون کے تحت اب اِس مسجد کو گرجے کی ملکیت قرار دیا جارہا ہے اور آئندہ دو برسوں میں یہ مسجد مکمل طور پر چرچ کی ملکیت بن جائے گی،جو اسپین میں اِس عظیم مسلم تاریخی ورثہ کے خلاف ایک مبینہ سازش ہے،مسجد کو مکمل طور پر گرجے میں تبدیل کرنے کے فیصلے نے دنیا بھر کے مسلمانوںمیں بے چینی کی لہر دوڑادی ہے،خود اسپین میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد اِس متنازع فیصلے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ،انٹر نیٹ پر ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد نے ایک آن لائین پٹینشن داخل کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے۔
کہ قرطبہ کی جامع مسجد اسپین کی تاریخ کی علامت ہے،لہٰذااِسے سابقہ حیثیت میں برقرار رکھا جائے اور کیتھولک چرچ کی ملکیت نہ بنایا جائے ،اُن کا موقف ہے کہ ملک کا کیتھولک چرچ اِس مسجد کی اسلامی حیثیت پر عیسائیت کو غالب کرنا چاہتا ہے،اِس وقت اسپین میں مسجد کے تاریخی تشخص کو بچانے کیلئے تحریک زور پکڑتی جارہی ہے ، جبکہ یورپ سمیت دنیا بھر کی مسلم تنظیموں نے بھی یونیسکو سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسپین کی حکومت کے اِس اقدام کو روکوانے میں اپنا کردار ادا کرے، دوسری جانب دنیا کے نقشے پر موجود پچاس سے زائد اسلامی ممالک اور اُن کے سربراہان مملکت کا حال یہ ہے وہ مسلم تاریخ کے اِس عظیم ورثے کی پامالی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں،آج اندلس میں مسلم تاریخ کا یہ عظیم ورثہ دنیا کے دیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے خوابیدہ ٔ ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔
Muslim Ummah
اُن کی قومی وملی غیرت اور دینی حمیت کو للکار رہا ہے اور سوال کررہا ہے کہ کیا اُمت مسلمہ میں اتنا بھی دم خم نہیں کہ وہ اپنے تاریخی ورثے اورشعائر اسلامی کے تحفظ کو یقینی بناسکے اور اِسے صلیبی دستبرد سے محفوظ رکھ سکیں۔ (نوٹ:۔ اس مضمون کی تیاری میں وکی پیڈیا اور دیگر ویب سائٹ پر موجود مواد اور کتاب”مسلمانان اندلس کی تاریخ ”ترجمہ ظفر اقبال کلیار سے ستفادہ کیا گیا ہے۔)