نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارت کے شمالی شہر آگرہ میں بعض ہندو تنظیموں کی جانب سے تقریباً 200 مسلمانوں کا مذہب ’تبدیل‘ کروانے کے واقعہ پر پارلیمان میں زبردست ہنگامہ ہوا اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکمراں بی جے پی پر ملک کے سیکولر اصولوں سے کھلواڑ کرنے کا الزام لگایا اور کہا حکومت آئین کی پاسداری کرے۔
جب آگرہ کی ایک کچی بستی میں غریب مسلمان خاندانوں کو ’گھر واپسی‘ کے نام پر ہندو بنانیکا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اس تقریب کی تصاویر اخبارات میں شائع ہوئی تھیں جن میں ٹوپی پہنے ہوئے کچھ مسلمان ایک ہندو مذہبی تقریب میں حصہ لیتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
تقریب وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور دھرم جاگرن منچ کی جانب سے منعقد کرائی گئی تھی۔ مسلمانوں انہیں ’دھوکے‘ سے تقریب میں بلایا گیا تھا اور تنظیم کے مقامی رہنماؤں نے انہیں راشن کارڈ اور شناختی کارڈ بنوانے کا لالچ دیا تھا لیکن بجرنگ دل کے مقامی رہنما اجو چوہان کا کہنا ہے مسلمانوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا تھا اور اب وہ ’خوف‘ کی وجہ سے ان پر الزام لگا رہے ہیں۔ اس کے برعکس مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ خوف کی وجہ سے تقریب میں شریک ہوئے تھے اور انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ انہیں ہندو بنایا جارہا ہے۔
ان میں سے زیادہ تر لوگ کوڑا اٹھانے کا کام کرتے ہیں اور انکا تعلق مغربی بنگال اور بہار سے ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے اس سلسلے میں ایک مقدمہ قائم کیا ہے کیونکہ ملک میں لالچ دیکر مذہب تبدیل کرانا ایک جرم ہے اور مذہب تبدیل کرنے سے پہلے ضلعی انتظامیہ کو مطلع کرنا ضروری ہے۔پارلیمانی امور کے وزیر مختارعباس نقوی نے اپوزیشن کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ کے سلسلے میں مقدمہ درج ہو چکا ہے۔
معاملے کا وفاقی حکومت سے کوئی تعلق نہیں، تفتیش کرنا اور قصور واروں کو سزا دینا ریاستی حکومت کا کام ہے۔بی بی سی کے مطابق گزشتہ ایک برس میں بھارت میں مذہبی منافرت بڑھی ہے اور بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے اسے روکنے کیلئے خود وزیراعظم کو سخت اور واضح پیغام دینے کی ضرورت ہے۔