کسی قوم کے عروج و زوال کے اسباب میں بنیادی اور اہم سبب ان کی اپنی اختیار کردہ ترجیحات ہوتی ہیں۔یعنی جو قوم اپنی تمام تر صلاحیتوں کا محور ومرکز درست و اچھے امور (تعلیم ،حسن معاشرت،درست اخلاق ،محنت و لگن کو وطیرہ بنا لینے )کی انجام دہی کو ادا کرنے کو اپنا فریضہ سمجھ لیتی ہے وہ قوم ہمیشہ کی ترقی و بلندی حاصل کی منازل کو بآسانی پہنچ سکتی ہے۔دوسری جانب جو قوم کاہلی و سستی،کام چوری ،علم دشمنی، تفرقہ بازی، عیش و عشرت اوراسی طرح کے سطحی امور میں اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرے تو ناکامی و نامرادی ان کا مقدر ٹھرتا ہے۔
اسی طرح کی صورتحال کا سامنا مسلم امہ کو بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی اور ستاون اسلامی ممالک کرہ ارض پر موجود ہوتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان مسلم ممالک کے میں (تیل ،سوئی گیس، کوئلہ ،سونا، باغ و بہار،مختلف موسم اور ان موسموں میں قسما قسم کی فصلیں اور پھل اور ہر طرح کی نعمتوں کی فراوانی میسر کر رکھی ہے مگر افسوس اس سب کے باوجود مسلم امہ روبہ زوال ہے ۔
نعمتیں موجود ہیں مگر ان کو آزادانہ طور پر ان نعمتوں کواستعمال اور استفادہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے کیوں کہ یہ مسلم ممالک عالم کفر کے رحم و کرم پر ہیں۔ وہ جب چاہیں اور جیسے چاہیں ان مسلم ممالک کو اپنی مرضی ومنشا کے مطابق ان کو استعمال کرتے ہیں۔ بہر حال یہ فوقیت جو عالم کفر کو عالم اسلام پر حاصل ہے اس کا سبب تعلیم کے میدان ان کی ترقی و بالادستی کے سبب ہے۔ حال ہی ایک تا زہ رپورٹ اخبارات میں شائع ہوئی ہے اس کے مطابق ایک کروڑ چالیس لاکھ یہودی ڈیڑھ ارب مسلمانوں سے سیاسی و اقتصادی لحاظ سے مضبوط و طاقت ور ہیں۔
ستاون اسلامی ممالک میں کل بانچ سو یونیورسٹیاں کام کررہی ہیںجبکہ صرف امریکہ میںپانچ ہزار سات سو اٹھاون اور ہمارے پڑوسی ملک جو ہمارے ساتھ آزاد ہوا بھارت اس میں آٹھ ہزار چارسو ساٹھ یونیورسٹیا ں کام کر رہی ہیں ۔اس کے عیسائیوں میں شرح خواندگی مجموعی طورپر نوے فیصد ہے جبکہ مسلم ممالک کی شرح خواندگی صرف چالیس فیصد ہے۔مسلم دنیا میں جدیدریسرچ پر جی ڈی پی کا صفر اشاریہ دو فیصدسالانہ خرچ کیا جاتا ہے۔ یہ اعداد و شمار ایک مسلم بینکار اے بی محمد نے لندن میں ایک منعقدہ تقریب میں بیان کئے۔
اس رپورٹ کو سامنے کو دیکھتے ہوئے یہ رائے قائم کرنے میں کوئی حجاب و تردد نہیں کہ مسلم ممالک کی ترجیحات تعلیم و ریسرچ نہیں بلکہ ان کی تمام تر سرگرمیوں کا محور و مرکز دنیوی عیش و عشرت ،جاہ و منصب، عارضی راحت و سکون کو مطلوب و مقصود بنا رکھا ہے۔ مسلم حکمرانوں کو غیروں کی کاسہ لیسی سے فرصت نہیں ہے یوں کہا جائے تو بجا نہ ہوگا کہ مسلم حکمران دین اسلام اور مسلم امہ سے زیادہ عالم کفر کی وفادار ہے کیوں کے ان کی ہر جائز و ناجائز خواہشات کے سامنے سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔
Islamic teachings
اسلامی تعلیمات کا بڑی ڈہٹائی و بہادری کے ساتھ مذاق اڑاتے ہیں اور ملت اسلامیہ کی نئی نسل کو ظلمات و اندہیروں میں دکھیل دیتے ہیں۔ تاریخ سے یہ امر ثابت ہے جب تک مسلم امہ نے اپنا اوڑہنا و بچھونا علم کو بنائے رکھا تب تک انہوں نے دنیا پر عزت و عظمت اور وقار کے ساتھ حکمرانی کی مگر اب جب مسلم حکمرانوں نے اپنے ممالک میں علم کی فراوانی سے روگردانی اختیار کرلی ہے اور اس میں کافی حد تک اس عمل کا بھی دخل ہے کہ اگر معاشرے کے جہلا اور کم درجہ طبقے کے لوگ علم کے اسلحہ سے مسلح ہوجائیں گے۔
تو ان کی فرعونی، قارونی، جبروتی اور مظالم سے بھری حکومت کی تاریخ زیادہ طویل نہ ہو سکے گی اور جلد ان کو ابدی انتقام کا نشانہ بنا کر اقتدار سے بے دخل کر دیا جائے گاتو اس سبب سے بھی انہوں نے جان بوجھ کر اپنی ترجیحات کو تبدیل کرلیا جس کے سبب نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ مسلم امہ اکثریت میں ہونے کے باوجود بھی ظلم و جور کی چکی میں پس رہی ہے۔
آج وہ زمانہ آن پہنچا ہے جس کے بارے ہیں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نشاندہی فرمائی تھی کہ ایک وقت آئے گا کہ ملت کفر ملت مسلم پر غالب آجائے گی تو صحابہ کرام نے آب صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا کہ کیا اس وقت مسلم امہ اقلیت میں ہوگی تو جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ ملت اسلامیہ دین پر عمل کرنے کو ترک کر چکی ہوگی ،تو صحابہ کرام نے استفسار کیا کہ ایسے زمانے کو ہم پا لیں تو کیا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگر آپ اس زمانے کو پالیں تو آپ پر لازم ہے کہ آپ قرآن و سنت کو مظبوطی سے تھام لینایعنی ان پر عمل کرنا۔
اب جب ہم اس زمانے کو پہنچ چکے ہیں کہ اب ہم پر لازم ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیم کو ہر خواص و عام تک پہنچائیں اور اس کے ساتھ ہی علوم جدیدہ کے فروغ کو اس قدر عام کردیں کہ ہر فرد اس سے استفادہ حاصل کر کے ان علوم کے توسط سے بھی معرفت الہٰی حاصل کر سکیں کیوں کہ دین اسلام کی اساس و بنیاد جس پہلی وحی سے ہے اس میں علم کے حصول کی طرف دعوت دی گئی ہے اور اس علم کو حاصل کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس میں کوئی واضح حکم نہیں بیان کیا کہ کون سا علم حاصل کریں دنیوی یا دینی (کیوں کہ دین اسلام میں علم کے بارہ میں درحقیقت کوئی تقسیم ہے ہی نہیں)بلکہ عام علم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا کہ اپنے خالق و ماک کے نام سے پڑھیں جو تمام مخلوقات کو پیدا کرنے والا ہے۔
آج لازم ہے کہ مسلم حکمران اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کرتے ہوئے اپنے ممالک میں بنیادی و اساسی تعلیم معاشرے کے تمام امیر و غریب ،اعلیٰ و ادنیٰ طبقات کے طلبہ کے لیے بلا امتیاز یکساں نظام و نصاب تعلیم ترتیب دیں اور ان بچوں کو مکمل تعلیم مفت فراہم کریں اور اس کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر اپنے ممالک میں اعلیٰ تعلیم کو فروغ دیں اور اچھے تعلیمی ادارے قائم کریں ان میں جدید ریسرچ پر کام کرنے سے متعلق نوجوانوں میں شعور اجاگر کریں۔جو متوسط طبقے سے وابطہ طلبہ جو بھاری بھر کم فیسیں ادا کرنے سے عاجز ہیں مگر ان میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی لگن و جستجو رچی بسی ہوئی ہے ایسے طلبہ کو مالی معاونت فراہم کریں (مملکت کے غیرضروری اخراجات ،عیش و عشرت پر ملکی دولت صرف کرنے کی بجائے تعلیم کی فراہمی اور جدید ریسرچ کو فروغ دینے پر خرچ کریں)
تاکہ وہ بھی معاشرے کے دوسرے افراد کے برابر مقام حاصل کر سکیں۔تمام قارئین کو رمضان المبارک کی آمدپر دل کی اتہا ہ گہرائیوں سے مبارک پیش کرتاہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ رمضان جو کہ برکتوں ،رحمتوں ،مغفرتوں اور بخششوں والے مہینہ سے مکمل طور پر فیضیاب ہونے کی توفیق عطافرمائے(آمین)آپ سے التماس ہے کہ رمضان المبارک کی سحری و افطاری اور مبارک لمحات میں مجھ ناچیز کو اپنی دعائوں میں ضرور یاد فرمائیں۔