چند روز قبل بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک شرمناک واقعہ پیش آیا۔ جس میں مینجمنٹ سائنسز کی طالبات کی جانب سے منعقدہ کانفرنس میںعالمی دنیا میں موجود ممالک کی ثقافت کو پیش کرنے کے لیے کلچر سٹال کا اہتمام کیا گیا۔ ان ہی سٹالوں میں ایک سٹال ایسا بھی سجایاگیا جس میں عالم اسلام کے ازلی و ابدی دشمن اسرائیل کی ثقافت کوپیش کرنے کا سٹال بھی لگایا گیا۔
اس امر کا طلبہ و اساتذہ کو علم ہوجانے پر احتجاج کیا گیا جس پر وہ ثقافتی سٹال بندکردیا گیا۔مگر یہ خبر جیسے ہی یونیورسٹی کے قائداعظم آڈیٹوریم سے باہر آئی تو اسلام سے محبت و مودت رکھنے والے اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی قربیانیوں کو عزت وقدر کی نگاہ سے دیکھنے والے طلبہ و اساتذہ میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ۔ایسا ہونا ایک فطری امر تھا کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور قرآن پاک نے مسلمانوں کو یہود سے دوستی و قرابت کا رشتہ استوار کرنے سے منع کیا ہے۔مگر افسوس عالم اسلام کے تمام ممالک اعلانیہ و غیر اعلانیہ یہود و نصاریٰ سے دوستی قائم کیے ہوئے ہیں۔
اسلامی یونیورسٹی میں اس ان ہونے واقعہ پر ملک بھر میں نوجوانوں اور مذہبی حلقوں اور صحافتی اداروں سے وابستہ تمام افراد احتجاج درج کروانے میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔باعث تشویش امر یہ ہے کہ اس امر سے متعلق افراط و تفریط اور بہت زیادہ مبالغہ آرائی سے سے کام بھی لیا جارہاہے ۔کہیں یہ باتیں سامنے لاجارہی ہیں کہ یونیورسٹی کے سابق ریکٹر فتح محمد ملک کو یونیورسٹی سے اس لیے نکالاگیا کہ انہوں نے کلچر ویک میں ایرانی سفیر کو بطور مہمان بلایا تھاتو یہ بات سعودیہ کو ہضم نہ ہوئی اس سبب سے ریکٹر صاحب کوگھر جانا پڑا۔کہیں یہ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ اس مسئلہ پر یونیورسٹی کے صدر کو استعفیٰ دے دینا چاہیے کیوں کہ یہ واقعہ ان کی انتظامی نااہلی کے باعث پیش آیا۔اسی طرح متعدد کالم نگار اپنے اپنے تجزیے پیش کررہے ہیں
اپنی من کے مطالبات بھی پیش کررہے ہیں۔اور دوسری جانب سے یونیورسٹی کی جانب سے تین اہم ذمہ داران کو معطل کرنے کا بیان بھی جاری کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی خبریں ہیں کہ اس واقعہ میں ملوث طالبات کو یونیورسٹی سے نکالا جاسکتاہے !۔اس سارے منظر نامے کو دیکھنے کے لیے کمیٹی بنائی گئی ہے جو اپنی رپورٹ جلد پیش کرے گی ۔
ہم یونیورسٹی کے ان مندرجہ بالافیصلوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کو نہ تو طالبات کو یونیورسٹی سے نکالنا چاہیے اور نہ ہی صرف تین افراد کوبلاکسی ٹھوس ثبوت و شواہد کے بغیر معطل کرناچاہیے ،کیوں کہ اس واقعہ کے حقیقی مجرم پس پشت چلائے جائیں گے اور وہ پھر موقع مناسب دیکھ کر اس یونیورسٹی کے تشخص کو مجروح کرنے کی ناپاک حرکت کا ارتکاب کرسکتے ہیں ۔ یونیورسٹی طالبات کو اس قبیح امرکی جانب ابھارنے یا رہنمائی کرنے والوں کا سراغ ضرور لگانا چاہیے اور یہ بھی جائزہ لینا چاہیے!!!
اس ملک کی ثقافت کو پیش کرنے کے لیے جو ضروری سامان اور لوازمات کا انتظام کیا گیا تو یہ سب فراہم کرنے والے کون سے عناصر ہیں؟؟۔اسی طرح اس پروگرام کی اجازت دینے والوں اور نگرانی کرنے والوں کی نشاندہی بھی کی جائے !!!اور اس کے ساتھ ہی یہ سب تحقیقات دفتری کارروائی کی نظر کرنے کی بجائے ان کو یونیورسٹی کے طلبہ اور عوام کے سامنے پیش لائی جائے !!!بصورت دیگر اس امر میں کسی بھی قسم کی غیر ذمہ داری کا ثبوت یونیورسٹی کو دائمی نقصان سے دوچار کرسکتا ہے۔ اور بعض نادان دوست جو کہ اس مسئلہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے اسلامی یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے کی کوشش کررہے ہیں ان سب احباب کے تمام ناجائز مطالبات کو ہم ناصرف مسترد کرتے ہیں بلکہ ان کی مذمت بھی کرتے ہیں
وہ انجانے میں سیکولر طبقوں کو کی مددکرنے کی کوشش کررہے ہیں جس سے اس یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کو سخت خطرات لاحق ہیں۔اسی طرح ہم اسلامی یونیورسٹی کولادینی و سیکولر طبقوں کے ہاتھوں میں ہر گز نہیں جانے دیں گے۔ اسلامی یونیورسٹی کے صدر کے استعفیٰ کا مطالبہ بالکل بے جا ہے اور اس کے ذریعے سے دشمنان اسلام اس یونیورسٹی کو لادین طبقے کے ہاتھوں میں دینا چاہتے ہیں اس لیے ہم اس امر کی مذمت میں اپنی آواز کو بلند کرنادینی فریضہ جانتے ہیں ۔البتہ کھلی بات ہے کہ اسلامی یونیورسٹی کے صدر گذشتہ دوسالوں سے بہت سی صریح اور ناقابل بیان غلطیاں کی ہیں، جن پر کان نہ دہرنے کے سبب گاہے بگاہے اس یونیورسٹی میں جانے یا انجانے میں مسائل پیدا کیے جارہے ہیں، جس سے اس یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کو نقصان پہنچنا ایک فطرتی امر ہے۔ان امور میں سے چند اہم غلطیوں کی ہم یہاں نشاندہی کیے دیتے ہیں۔
اسلامی یونیورسٹی جو کہ11 /9 کے بعد سے عالمی سازش کے کا شکار ہے ۔اس کو صف ہستی سے مٹانے کی کوشش کی جاتی رہی بس یہ اللہ رب العزت کا احسان ہے کہ یہ یونیورسٹی اب تک تمام سازشوں کے باوجود قائم و دائم ہے اور قائم رہے گی۔ اس یونیورسٹی کو سیکولر تعلیمی ادارہ میں بدلنے کی کوشش ماضی میں بھی کی جاتی رہی ہے، یونیورسٹی کو مسلکی و سیاسی عصبیتوں کا مرکز بنانے کی کوشش کی جاتی رہی، یونیورسٹی کو ایران نواز بنانے کی کوشش بھی کی گئی اور پھر اب اس یونیورسٹی کو سعودی اور متشدد سلفی(غیر مقلدین) یونیورسٹی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اوریہ امر کسی طرح نا تو پاکستان کی فضا میں درست ہے اور نہ ہی یہ یونیورسٹی اس بوجھ کو اٹھانے کی متحمل ہے۔جبکہ یہ مسلمّہ بات ہے کہ ہم اس تعلیمی ادارے کو ہر قسم کی سیاسی و مذہبی ،قومی و لسانی عصبیتوں سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں مگر افسوس کہ اب اس کو ایک خاص فکر کی نشونما کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
اسلامی یونیورسٹی کے سعودی صدر نے اپنے آپ کو آمر وقت اور بادشاہ بنا لیا ہے اپنے اور طلبہ کے مابین اس قدر دوریاں پیدا کرلیں ہیں کہ کوئی طالب علم اس تک بآسانی رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔اپنے دائیں بائیں ایسے افراد کو معمورکرلیا ہے جو ایک خاص مسلک سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر اس کی ترجیح یہ ہے کہ کاسہ لیس ،بھکاری و جی حضوری کرنے والے اللے تللے افراد کو نوازا جائے ۔اسی طرح طلبہ و ملازمین کی زبانیں گنگ کرنے کی خاطر عمرہ و حج جیسے مقدس عبادتوں کو بطور ہتھیا راستعمال کیا ہے ۔اسی طرح طلبہ کو سکالرشپس دیکر ان کو کلمہ حق کہنے سے روک لیا ہے۔
اپنی آمد و رفت پر درجن بھر سیکیورٹی عملہ کو مامور کر لیا ہے ۔اردو و انگریزی سے عدم واقفیت کے باعث درجن بھر مترجمین کو اپنے آفس میں لگالیا ہے۔یونیورسٹی کو دینی طور پر بہتر و ممتاز مقام دلوانے کے لیے اب تک کوئی بہتر و نیک کام نہیں کیا ہے۔ان دوسالوں میں متعدد کانفرنسیں ہوئی ہیں جن کا عملی نتیجہ تاحال سامنے نہ آسکا اور ان کانفرنسوں پر خرچ ہونے والی رقم کو پانی کی طرح بہایا گیا جو کہ باعث تشویش ہے۔
صدر جامعہ نے یونیورسٹی کے اہم عہدوں پر قبضہ جما رکھاہے جن میں اصول الدین فیکلٹی کی ڈین شپ،دعوة اکیڈمی کی ڈائریکٹر کی شپ قابل ذکر ہیں۔اصول الدین فیکلٹی کو ناکارہ کرنے کی مکمل کو شش کی جارہی ہے ۔شعبہ حدیث میں خالص فکر کے حامل پاکستانی اساتذہ کو لایا گیا ہے جو کہ صدر جامعہ کی جائز و ناجائز امورمدد کرسکیں۔اصول الدین فیکلٹی ان اساسی فیکلٹیوں میں سے ایک ہے جویونیورسٹی کی تاسیس کے ساتھ قائم کی گئی۔ مگر افسوس آج اس فیکلٹی اہل علم و دانشور وں کی تیاری کا کام معدوم ہوچکا ہے ۔یہاں من پسند اور بھاری بھر اسناد کے حامل اساتذہ کو مقرر کیا جاتاہے اور ان کی ہر خواہش کو پوراکیا جاتا ہے بھلے وہ طلبہ کے مستقبل کے ساتھ ہی کیوں نہ کھیل رہے ہوں بس چونکہ وہ استاذ مقرر ہوچکے ہیں اس لیے وہ نئی نسل کو تختہ مشق بنائیں گے ۔اس امر سے واضح یہ سبق لیا جاسکتاہے
صدر جامعہ اور ان کے مخصوص فکرر کے حامل پیروکار اصول الدین فیکلٹی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے انتہائی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے۔عرب اساتذہ کے ساتھ ظالمانہ و آمرانہ و دشمنانہ سلوک روارکھا جارہاہے ۔جب کہ ان حضرات کو یونیورسٹی کے تمام طلبہ عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں شائد اسی وجہ سے یونیورسٹی کے اہم معاملات سے ان کو دور کردیاگیا ہے،جن میں دعوتی و فکری نشستیں جو طلبہ کی دینی رہنمائی کے لیے سارے ہفتہ یونیورسٹی کے ہاسٹلز کی مسجدوں میں لیکچر دینے کے لیے اپنے خرچوں پرعرب اساتذہ آتے تھے
ان حضرات سے دعوتی شعبہ ہی چھین لیا گیا جس کے باعث اب طلبہ دین کے اہم و ضروری مسائل سے واقفیت حاصل کرنے میں پریشانی محسوس کررہے ہیں ۔لیکن یہ پاکستانی اساتذہ اور سعودی صدر اور اس کی ہاں میں ہا ں ملانے والی انتظامیہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ پاکستان ہے اور اس پاکستان میں کوئی بھی ظالم و جابر زیادہ عرصہ اپنی مرضی جبراًمسلط نہیں کرواسکتا۔یہ ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں طلبہ اپنا حق لینا اچھی طرح جانتے ہیں بس ان کے جائز حقوق کی فراہمی میں لیت و لعل کے ذریعہ نظر انداز نہ کیا جائے۔
اسلامی یونیورسٹی میں بہت سے ایسے افراد برسر اقتدار اہم عہدوں پر موجود ہیں جو صرف نفرتیں بانٹیں کا کام سرانجام دیتے ہیں یونیورسٹی کی تعمیر کی بجائے تخریب کی فضا بنانے میں اپنا کردار ڈالتے ہیں ۔ان میں مسلک پرست،سیاست زدہ،اور قوم پرست لوگ اہم کردار اداکررہے ہیں۔اسی طرح یونیورسٹی کے ہوسٹلوں میں چرس نوشی اور اس کی خریدوفروخت کا بازار سجا نظر آتا ہے اور خبر یہ بھی ہے کہ یہاں شراب بھی بیجی و استعمال کی جاتی ہے جس کی گواہی یونیورسٹی کے اہم ذمہ دار خود دے سکتے ہیں مگر یہ الگ بات ہے کہ وہ اس امر پر نوٹس لینے میں متردد نظر آتے ہیں۔
اسلامی یونیورسٹی میں طلبہ کو داخلے میرٹ کی بجائے پیسہ بٹورنے کے لیے بنا کسی نظم وترتیب کے دیے جاتے ہیں مگر ان طلبہ کو سنبھالنے کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں ۔اس یونیورسٹی میں تعلیمی بلاک کی تعداد ناکافی ہے کہ جہاں طلبہ بآسانی اپنی کلاسز لے سکیں اور اسی سبب بہت سے اساتذہ چھوٹی کلاسوں کو اپنے دفتروں میں پڑھالیتے ہیں مگر بڑی کلاسوں کے لیے اپنے سارے دن کو ضائع کرنا پڑتاہے اس صورت میں استاذ و طلبہ سبھی کا قیمتی وقت ضائع ہوجاتاہے۔اسی طرح نئے آنے والے طلبہ کے لیے ہاسٹل کا کوئی نظام موجود نہیں تین تین سمسٹر تک طلبہ ہاسٹل کے حصول میں ذلیل و خوار اور دربدر کی ٹھوکر کھانے پر مجبور ہوتے ہیں ۔البتہ سیاسی و مذہبی،قومی و لسانی گروپ سے تعلق کی صورت میںہاسٹل کی فراہمی کے لیے یونیورسٹی کے تمام قوانین تبدیل کیے جاسکتے ہیں۔
International Islamic University
یونیورسٹی میں طلبہ کو سکالرشپس کا اجراء صرف اس صورت میں کیا جاتاہے جب وہ کاسہ گدائی لے کر صدر جامعہ کے دربار پر مہینوں طواف کرے،لازم بات ہے غریب و مجبور طالب علم اس قدر اپنا وقت ضائع نہیں کرسکتا اس سبب سے یہ سکالر شپس مالدار طلبہ کا مقدر ٹھہرتی ہے۔جب کہ ہونایہ چاہیے کہ اس یونیورسٹی کے اساسی شعبوں اصول الدن،شریعہ اینڈ لاء اور عربی میں داخل ہونے والے تمام طلبہ کو مفت تعلیم دی جائے چونکہ دین سے محبت کرنے اور اس کو پڑھنے والے افراد اکثر و بیشتر متوسط و کمزور گھرانوں سے ہوتے ہیں ۔مگر یہاں نیکی و بھلائی کا کام تو کوئی نظر نہیں آتا بلکہ بھکاری گداگری کے ہنر سے متصف ہونے والے کو مستحق مدد سمجھا جاتاہے۔اسی طرح حال ہی میں بعض اساتذہ کو یونیورسٹی سے صرف اس بنیاد پر نکالا گیا کہ یونیورسٹی ان کو تنخواہیں نہیں دے سکتی افسوس ہے اس بات پر کہ صدر جامعہ اپنے پروٹوکول اور آمد و رفت اور اپنی بادشاہت و آمریت کو باور کروانے کے لیے لاکھوں روپے صرف کریں تو کوئی بات نہیں جب اساتذہ کی بات آئے جو سالہاسالوں سے یونیورسٹی کی جان و دل اور خون و پسینہ بہاکر طلبہ کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہے ہیں ان کو یونیورسٹی سے نکال دیا جائے۔
جب کہ یہ کھلی بات ہے کہ یونیورسٹی کے پاس پیسہ وافر مقدار میں موجود ہے تبھی تو لغو و عبث کانفرنسوں کا انعقاد بار بار مختلف عنوانات سے کیا جاتاہے اور ان میں شرکت کرنے والے مقالہ نگار سوائے چند کے سبھی بار بار ہر کانفرنس میں نئے میک اپ کے ساتھ نظر آتے ہیں اور ان میں سے اکثر نااہل و وقت برباد کرنے والے اور پیسہ پرست ہوتے ہیں ۔جس سے اسلام و مسلمانوں کو ایک ذرہ بھر کا بھی فائدہ نہیں ہوا اور نہ ہی ایسی کانفرنسوں سے کچھ فائدہ ہوگا کیوں کہ یہ تعمیری تو ہوتی نہیں ہیں بس صرف فوٹو سیشن و کاغذی کارروائی کو مکمل کرنے کے لیے کھیل کھیلا جاتاہے۔صرف یہی نہیں خود صدر جامعہ ادارہ تحقیقات اسلامی پر قبضہ کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنی کتابوں کو اردو میں ترجمہ کروارہے ہیں جب کہ تسلیم شدہ بات ہے کہ پاکستان ایک ممتاز اسلامی ریاست ہے اور اس میں فقہی و معاملاتی ومعاشرتی موضوعات پر بڑے بڑے اہل قلم طبع آزمائی کرچکے ہیں ایسے میں صدر جامعہ کی کتب کو ترجمہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔
ان تمام بکھری میٹھی و کڑوی باتوں کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صدر جامعہ پر یہ امر واضح کیا جائے کہ ہم آپ کا استعفیٰ تو نہیں مانگتے مگر آپ سیچند اہم امور پر غور وفکر کی دعوت ضرور دیتے ہیں ۔جن سے آپ گذشتہ دوسالوں سے مسلسل آنکھیں چرارہے ہیں ان پر سنجیدگی سے غور کریں اور اپنی ان غلطیوں اور کمزوریوں کا ازالہ کریں تاکہ آپ اپنا مقررہ وقت عزت و عظمت کے ساتھ بسر کرسکیں ۔
آخر میں جن امور کو انجام دینا صدر جامعہ پر لازم ہے وہ درج کیے دیتاہوں اولاً:صدر جامعہ اپنے اور طلبہ کے مابین قائم کردہ آمرانہ و جابرانہ دیوراکو ختم کریں ۔اگر انہوں نے طلبہ کے ساتھ نیک و اچھا سلک رکھا تو ان کو طلبہ اپنے حقیقی والدین سے زیادہ عزت و احترام دیں گے اور رہی بات سیکیورٹی تھرڈ کی تو ان کو یہ جان لینا چاہیے جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں آسکتی پھر بھی اگر کوئی مسئلہ ہے تویونیورسٹی سے باہرسیکیورٹی کا استعمال کریںمگر یونیورسٹی کے اندر طلبہ کو ذلیل و خوراکرنے کے لیے راستے جدا کرنا اور ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک روا رکھنا درست امر نہیں ۔ثانیاً:اسلامی یونیورسٹی میں کسی بھی قسم کی سیاسی و مذہبی یا قومی و لسانی عصبیتوں کو پنپنے یا فروغ دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے چہ جائے کہ خود صدر جامعہ ایک خاص فکرجو عالمی و داخلی سیاست سے مرکب ہو کو فروغ دینے میں کردار اداکررہے ہوں۔کیوں کہ پاکستان کی فضا کسی طور پر بھی فرقہ ورانہ خیالات کو ہوادینے والے عناصر کو قبول نہیں کرتی کیوں کہ ہم پہلے ہی اس ایندھن میں جل کر اپنے ستاسٹھ سال ضائع کرچکے ہیں۔
خدارا!اب یہاں بریلوی ،دیوبندی اور اہل حدیث سمیت دیگر عصبیتوں کو پھلنے و پھولنے نہ دیں۔ اصول الدین فیکلٹی کو بالخصوص فرقہ ورانہ عصبیت سے پاک کیا جائے ،ہم اس یونیورسٹی میں علم و عمل اور اخلاق و تربیت کے اسلحہ سے مسلح ہونے کے لیے آئے ہیں ورنہ پاکستان میں مسالک و گروہی تعلیم دینے والے تو ادارے بہت ہیں۔ثالثاً:عرب اساتذہ جن کو یونیورسٹی سے ذاتی بغض و عناد کے سبب نکالنے کا فیصلہ کیا گیا تھا صرف تنخواہ نہ دے سکنے کا بہانہ استعمال کیا گیا اور پھر طلبہ کے شدید احتجاج و اصرار پر ان کو جنوری تک کے لیے دوبارہ بحال کیاگیا ہے ۔ہم مطالبہ کرتے ہیںکہ ان محترم و مکرم اساتذہ کو طلبہ و یونیورسٹی کے علمی وعملی مفاد میں مستقل طورپر بحال کیاجائے اور ان حضرات کے ساتھ کسی بھی قسم کی سازش رچانے کی کوشش نہ کی جائے چونکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ اساتذہ علم دوست و محبت و مودت کو بانٹنے والے ہیں اور ان کا وجود پاکستان کے مسلم عوام کو علم و عمل کے شعبہ سے وابستہ رکھنے کے لیے ازحد ضروری ہے۔
رابعاً:ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ یونیورسٹی میں فی الفور طور پر تعلیمی بلاک تعمیر کیے جائیں تاکہ طلبہ بروقت استفادہ کرسکیںاور ان کا وقت لہولعب میں ضائع نہ ہو۔اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ اصول الدین فیکلٹی جس کے چھ شعبے ہیں ان شعبوں کو مستقل کمرے دیے جائیں تاکہ حصول علم میں کسی طرح کا حرج واقع نہ ہو۔خامساً:ہمیں معلوم ہے کہ یونیورسٹی کے پاس مال کثیر صدقات و زکوٰة اور عطیات کی مدمیں موجود ہے جس سے اصول الدین ،شریعہ اور عربی فیکلٹی کے طلبہ کی فیسیں اداکی جائیںاور طلبہ کو ذاتی جیب خرچ میں سے اپنی کتب خریدنے کی ترغیب دی جائے ۔سادساً:یونیورسٹی میں فی الفور ترجیحی بنیادوں پر سٹوڈنٹس ہاسٹل تعمیر کرائے جائیں تا کہ طلبہ دربدر کی ٹھکریں کھانے میں وقت برباد کرنے کی بجائے اپنے ہاسٹلوں میں رہ کر علم کی پیاس بجھاسکیں۔
سابعاً:یونیورسٹی میں تمام اساتذہ کو اخلاقی و معاملاتی تربیت اور حس سلوک و حسن معاملہ کی تربیت دی جائے اور اسی طرح اساتذہ کے ذریعہ سے یہ طلبہ تک یہ دعوت منتقل ہونی چاہیے۔ثامناً:اصول الدین فیکلٹی کو اسلام کی ترجمان فیکلٹی کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے نہ کہ یہاں پر صرف سعودیہ سے تعلیم یافتہ سعودی افکار کو فروغ دینے والوں کا تقرر کیا جائے بلکہ ہم پوری شدت کے ساتھ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ یونیورسٹی میں تمام مقامات پر ہم آہنگی و اتحاد کی فضا کو برقرار رکھنے کے لیے مسالک کی تفریقات سے بالاتر ہوکر تقرریاں کی جائیں اور اسی طرح نااہل و کٹھ پتلی افراد کو نوازنے سے اجتناب کیا جائے بالخصوص صدرجامعہ اصول الدین فیکلٹی کی ڈین شپ ترک کر کے جلد از جلد نیک و باصلاحیت اور علم دوست خودمختار ڈین کا تقرر کریں کیوں کہ ان کا اس عہدے پر براجمان رہنا نہ تو قانوناً درست ہے اور نہ ہی اخلاقی طور پر کیوں کہ یہ فیکلٹی اب ایک خاص مسلک کی ترجمان بن چکی ہے
اگر یہ ظلم در ظلم جاری رہا تو عالم اسلام میں یونیورسٹی کا منفرد علمی مقام تھا وہ ہمیشہ کے لیے خاک میں مل جائے گا۔تاسعاً:اسلامی یونیورسٹی میں ہر قسم کی تنظیموں کو ایک دائرہ کار کا پابند بنایا جائے جس میں نہ تو دین اسلام کے دائرے سے نکلنے کی اجازت ہو اور نہ ہی امربالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ بازور بازو اور طاقت کے ساتھ مسلط کرنے کی اجازت دی جائی۔عاشراً:صدر جامعہ پر لازم ہے کہ وہ اپنے گرد نواح میں متعین ایک خاص مسلک کے چنگل سے نجات حاصل کریں کیوں کہ ان کی موجودگی میں وہ اسلام اور یونیورسٹی کو فائدہ دینے کا کوئی بھی قابل ذکر کام سرانجام نہیں دے سکتے۔یہ سب ایک خاص قسم کی سوچ و فکر کے حامل ہیں ان کا وجود یونیورسٹی کو تباہی و بربادی کی کہائیوں میں لے جانے کا باعث ہوگا۔
ہم امید کرتے ہیں کہ اگر صدر جامعہ اور ان کے متعلقین اگر ان مندرجہ بالاگذارشات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرلیں تو چنداں ان سے استعفیٰ مانگنے کی ضرورت نہیں ہوگی اور اگر خداناخواستہ وہ اپنی موجودہ ضدو عناد اور منفی ذہنیت پر کاربند رہے تو بعید نہیں کہ یونیورسٹی کے اسلامی تشخص کو اہمیت دینے والے ان سے اپنے ملک لوٹ جانے کا مطالبہ کریں اور اس لیے صدر جامعہ کو معلوم ہونا چاہیے پاکستانی قوم کسی بھی بیرون ملک کے آلہ کا رنہیں بن سکتی اور ان کو اپنے ملک سے بے دخل کرنا اچھی طرح جانتی ہے۔ چونکہ ہم نے پاکستان صرف اسلئے حاصل کیا ہے کہ یہ ایک اسلامی فلاحی مملکت ہوگی اس میں کسی کی بادشاہت و جبروتیت کو نہیں پنپنے دیا جائے گا اور ہمیں اسلام ہر قیمت پر عزیز ہے شخصیات و ممالک کے مفادات کو تحفظ دینا یہ ہماراکام نہیں ہے اور نہ ہی ہم اس کو انجام دیں گے ۔بس اس پہ بات ختم کرتا ہوں۔
ATIQ UR REHMAN BALOCHI
تحریر:عتیق الرحمن 03135265617 atiqurrehman001@gmail.com