مسلم لیگ اور پاکستان ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ محمد یار کموکا

Haroonabad

Haroonabad

ہارون آباد (تحصیل رپورٹر) مسلم لیگ (ن)کے رہنماء و سابق ٹکٹ ہولڈر قومی اسمبلی میاں محمد یار کموکا نے حالاتِ حاضرہ بارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ اور پاکستان ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ بدقسمتی سے قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد یہ جماعت طالع آزمائی کا شکار ہوگئی ہے۔ لہذا مسلم لیگ اور پاکستان دونوں ہی روبہ زوال ہو گئے۔

یہاں تک کہ آدھا ملک ٹوٹ گیا اور کشمیر بھی تاحال لٹکا ہوا ہے۔ آخر کاراس پارٹی کو میاں نوازشریف نے سیاسی طور پر مقبول عام بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہے۔ دو مرتبہ اُن کی حکومت کو نادیدہ قوتوں نے چلنے نہ دیا لیکن اپنے نام کے ساتھ مسلم لیگ کو منسوب کرنا درست ثابت نہ ہوا۔اس سے ذاتی پارٹی کا تاثر قائم ہو گیا۔ جبکہ سیاسی پارٹی،پارٹی ہوتی ہے پراپرٹی نہیں۔

لہذا1997 ء کے انتخاب کے بعد پاکستان کی طرح مسلم لیگ بھی ٹوٹ گئی۔نظریہ پاکستان ہی ہماری زندگی ہے۔ا گر یہ نہیں تو پھر پاکستان کہاں اور پاکستانی کہاں۔ملک قدر نے بطور تحفہ نبی کریم کی اُمت کو عطا کیا تھا۔لیکن اب تک ہم اس کی حفاظت اور بقا کو یقینی نہیں بنا سکے۔ میں مسلم لیگ کا کارکن ہوں اور اپنی وفاداری کے زور پر قیادت سے کہتا رہا ہوں کہ اس جماعت کو توڑ پھوڑ سے بچایا جائے اور دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی عزت وتکریم کر ساتھ ملکی معاملات میں شامل حال رکھا جائے خدا کا فضل ہے کہ کوئی پارٹی بھی ملک دشمن نہ ہے۔

عمران خان صاحب نے بھی اپنی حدود میں پاکستان کو عزت ہی بخشی ہے۔اب ان کو بھی یہ نہیں چاہیے کہ سیاست کو کرکٹ سمجھ لیں اور جلسوں میں شریک عوام کو تماشائی سمجھ کر جلسے پر جلسہ کئے جائیں۔ سابقہ کو تاہیوںپر لعنت بھیج کر آئندہ صاف ستھرا ماحول قوم کو دیا جائے۔ اور غریب سے دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ اُس کے نام کو اقتدار کا زینہ نہ بنایا جائے بلکہ اُس کے بچوں کا مستقبل کو محفوظ کرنے کا کوئی کام بھی کیا جائے۔

میاں نواز شریف کی اگر کوئی کوتاہی ہے تو عمران خان نے بھی پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت کی تھی۔ اب میاں نواز شریف کو توہین آمیز لہجے سے مخاطب کر کے غلط روایت نہ ڈالی جائے۔ شخصی احترام بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔اس صورتحال سے مسلم لیگ کے کارکن پریشان ہیں۔پتہ نہیں مسلم لیگ کہاں چھپی ہوئی ہے، اُس کو بھی چاہیے کہ25دسمبر کو مینارِ پاکستان میں جلسہ کرکے عوام کی اُمنگوں کی ترجمانی کی جائے اور ملکی مشکلات سے آگاہ کیا جائے۔