اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) مسلم لیگ (ن) کے رہنما سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ایک قریبی رشتہ دار فرخ عباسی نے دو روز قبل سوشل میڈیا پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا ’شاہد خاقان عباسی اپوزیشن لیڈر آئندہ ہفتے، انشاء اللّٰہ‘‘ یہ اطلاع بریکنگ نیوز سے کم نہ تھی جس نے مسلم لیگ (ن) کے حلقوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔
سوشل میڈیا پر دیا جانے والا مذکورہ پیغام چند گھنٹوں بعد ’ڈیلیٹ‘ بھی کر دیا گیا۔
اب یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ فرخ عباسی نے اپنا پیغام خود ڈیلیٹ کیا یا انہیں ایسا کرنے کے لئے کہا گیا۔ تاہم یہ کوئی غیر ممکن اطلاع نہ تھی جیسا کہ مسلم لیگ (ن) پاور بروکرز کے ساتھ شراکت اقتدار کیلئے بات چیت میں مصروف ہے، متوازی تجاویز بھی زیر غور ہیں۔
جن میں شاہد خاقان عباسی کو اپوزیشن لیڈر بننے کی تجویز بھی شامل ہے۔ پس منظر میں باخبر ذرائع سے گفتگو میں انکشاف ہوا کہ پارٹی قیادت پاور بروکرز کے ساتھ رابطوں میں سرگرم ہے۔ طرز حکمرانی کے بد سے بدتر ہو جانے پر ایک اہم افسر دو ماہ قبل مذاکرات کے لئے لندن گئے۔
متعدد ممکنات زیر غور آئے کہ کس سطح پر تبدیلیاں لائی جائیں یا حل کیلئے سیدھے عام انتخابات کا راستہ چنا جائے۔ تبدیلی کے فارمولے کے تحت قومی حکومت کے قیام پر بھی غور کیا گیا جس میں تمام بڑی جماعتوں کی نمائندگی ہو لیکن یہ آپشن مسلم لیگ (ن) کو نہیں بھایا۔
اس وقت کم از کم شہباز شریف قومی حکومت میں کوئی کردار ادا کرنے پر آمادہ نہیں ہیں کیونکہ قومی حکومت میں وہ کوئی آزادانہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہوں گے۔ البتہ انہوں نے تازہ عام انتخابات کرانے کی تجویز دی اور ان کی یہ رائے نوٹ کر لی گئی۔
فوری طور پر انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہونے کی صورت تب کلیدی پوزیشن کے لئے پارٹی کی جانب سے کون نامزد ہوگا؟ جب پوچھا گیا تو شہباز شریف کا کہنا تھا وہ نواز شریف سے پوچھ کر اس بات کا جواب دیں گے۔
بعدازاں انہوں نے خواجہ آصف کا نام دیا تاہم چند دنوں بعد ہی خواجہ آصف کو ہٹا کر کلیدی عہدے کیلئے شاہد خاقان عباسی کا نام دے دیا گیا۔ مرکز کے علاوہ پنجاب میں بھی ممکنہ تبدیلی کے لیے ایک اہم شخصیت کے ساتھ بات چیت میں زیرغور آئی۔
جنہوں نے لندن کے دو ماہ میں دو تین دورے کئے۔ شہباز شریف تو دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں کہ ان کے بیٹے حمزہ کو پنجاب میں اہم کردار ملے لیکن مذاکرات کار نے شریف خاندان سے باہر کا نام مانگا ہے۔
اس شرط کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک احمد خان، رانا مشہود احمد اور میاں مجتبیٰ شجاع الرحمٰن کے نام تجویز کئے گئے ہیں۔
ان رابطوں اور بات چیت کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی قیادت آئندہ کے بارے میں تذبذب کا شکار ہے۔ ترمیمی بل پر پارلیمنٹ میں غیر مشروط حمایت پر مسلم لیگ (ن) اپنے حامیوں کی نظروں میں پہلے ہی وقعت کھو چکی ہے۔
قیادت سمجھتی ہے کہ کھویا ہوا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اندرون ایوان تبدیلی کا حصہ بن کر یہ کسی ڈیل کا نتیجہ ہونے کے تاثر کو تقویت ملے گی اور نواز شریف ایسا تاثر پیدا کرنا نہیں چاہتے تاہم شہباز شریف کے خیال میں اقتدار میں واپسی سے پارٹی کو تقویت ملے گی جو زیادہ عرصہ اپوزیشن میں نہیں رہ سکتی۔ مریم نواز اپنے والد کے ساتھ ایک ہی صفحے پر ہیں۔
ترمیمی بل کی غیر مشروط حمایت کا الزام انہیں دینے کے بجائے وہ پیغام رسانوں پر برس پڑے۔ خواجہ آصف، رانا تنویر اور ایاز صادق کو شہباز شریف کے ساتھ اس فیصلے کے دباؤ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
شاہد خاقان عباسی اس تنازع میں مریم کے فطری اتحادی ہیں۔ نواز کیمپ انہیں ’مذاحمتی چہرے‘ کے طور پر متعارف کرانا چاہتا ہے۔ وہ مجوزہ کردار ادا کرنے کے اہل بھی ہیں کیونکہ وہ ترمیمی بل پر رائے شماری میں پارلیمنٹ سے غیر حاضر رہے کیونکہ پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے باوجود انہیں ایوان میں نہیں لایا گیا تھا۔
عدالت میں پیشی کے موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندے ملنے کے لئے قطار باندھے کھڑے رہے۔ انہیں اس طرح پیش کیا جا رہا تھا جسے مسلم لیگ (ن) کے نظریہ کے وہی سچے نمائندہ ہوں۔ اس تناظر میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے شاہد خاقان عباسی کا نام دیا جا رہا ہے۔
نواز شریف نے ان سے ضمانت داخل کرنے کیلئے بھی کہا ہے جس سے وہ حال تک انکاری تھے۔ اب انہوں نے درخواست ضمانت دائر کر دی اور ان کی جلد رہائی کا امکان ہے، ان کی رہائی میں واحد رکاوٹ ضمانت سے ان کا انکار ہی تھا۔
آیا شہباز شریف اپنی جگہ شاہد خاقان عباسی کو اپوزیشن لیڈر بنائے جانے پر آمادہ ہوئے یا نہیں، ابھی یہ دیکھنا باقی ہے۔ ڈیل یا کوئی ڈیل نہیں، ابھی درمیان میں بڑے ’’اگر مگر‘‘ ہیں۔
شریف برادرن اندرون ایوان تبدیلی میں حصہ دار بننا نہیں چاہتے۔ اس کی مکمل مختلف وجوہ بھی ہیں جن کا اوپر تذکرہ کیا جا چکا۔ وسط مدتی انتخابات ان کے لئے ترمیمی آپشن ہے جس سے انہیں نہ صرف قدم جمانے کا موقع ملے گا بلکہ اپنی مرضی کی حکومت بھی تشکیل دے سکیں گے۔
دریں اثناء شریف اور چوہدری برادران کو چھوڑ کر نئی پارٹی بنانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
اس مقصد کیلئے متعدد قدیم مسلم لیگیوں کے انٹرویو کئے گئے۔ بہرحال اس وقت اس کا کوئی علم نہیں کہ پاور بروکرز کے ذہن میں کیا متبادل منصوبہ ہے۔