تحریر: شاہ فیصل نعیم ہر عقل و خُو رکھنے والا مسلمان جس کے دل کی دنیا ابھی ایمان کی دولت سے ہری بھری ہے جس کے دل میں ابھی ایمان کی رتی بھر رمق باقی ہے جب اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا ہے ، جب اس مقدس وادی کے نہاں خانوں میں اُٹھنے والی لہریں ارتعاش پیدا کرتی ہیں جو بہت سے سوالوں کو زبان کی نوک پر لا پھینکتی ہیں اور زبان ان سوالوں کو الفاظ کا روپ دے کر اُگل دیتی ہے۔
آج کا مسلمان سوچتا ہے کہ ہم زمانے کی دوڑ میں اقوامِ عالم کی صف کی میں پیچھے کیوں ر ہ گئے؟تباہی و بربادی ہمارا ہی مقد ر کیوں ٹھہری؟کافر ہم پر کیسے سبقت لیے گئے؟ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارا معیار کیوں گرتا جا رہا ہے؟ہم امریکی و برطانوی سامراج کے پنجہِ استبداد میں کیوں پھنس گئے؟ ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بیوی، بچے، بھائی، قوم ،ملک اور قبروں میں پڑے ہوئے خاک کے پتلوں کے جسدِخاکی تک کیوں محفوظ نہیں ہیں؟ہم تو صدیوں سے حاکم چلے آرہے تھے پھر ہم محکوم کیوں بنا دیے گئے ؟ہماری سلطنتیں کیوں تاراج کر دی گئیں؟
جس طرح ہماری تباہی وبربادی کی جگر کو پاش پاش کر دینے والی ایک دل سوز کہانی ہے اُسی طرح ایک لمبی فہرست تباہی کی وجوہات کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے جو کسی سے مخفی تو نہیں ہے ہر بینا اُس سے آگاہ ہے وہ خود کو بچانے کے لیے اُن حقائق کو پسِ پردہ ڈال دے تو یہ الگ بات ہے ۔ایسے لوگ اس کبوتر کی مانند ہوتے ہیں جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتاہے اور سمجھتا ہے کہ میں چُھپ گیا، میری جان بخشی گئی۔
آئو پھر اپنی ہی تباہی کی کہانی اپنی ہی زبانی سنتے ہیں۔انسان کی پیدائش سے شامِ زندگی اور صبحِ دوامِ زندگی اور اُس سے بھی آگے موجود کئی رازوں کو پانے کی رہنمائی قرآن کے دامن میں موجود تھی لیکن ہم نے اُس کو نہ جانا ہم نے پہلے تو اپنے بچو ں کو مسجد کا راستہ دیکھانا گوارا نہ کیا اور اگر ضمیر نے کچھ زیادہ ہی لعن طعن کر دی تو اس ندامت سے نجات کے لیے بچوں کو مولوی صاحب کے سپرد کرآئے لیکن اولاد کے سامنے اس کام کو کرنے کا مقصد نہ رکھاکہ تم اس کتابِ مقدس کو کیوں پڑھنے جارہے ہو ؟جب انسان کے سامنے کسی کام کو کرنے کا مقصد واضح نا ہو تو وہ کام اپنی چاشنی کھو دیتا ہے
Holy Quran
اس کو کرنے میں وہ لطف باقی نہیں رہتا،ہم نے قرآن کو گھروں میں اونچی پاک جگہوں پر اعلیٰ ملبوسات میں لپیٹ کر رکھا تاکہ کوئی بھول کر بھی اِسے پڑھنا چاہے تو اس تک رسائی حاصل نہ کر پائے،ہم نے قرآن کو برکت کے لیے گھروں ،دکانوں اور کارخانوں میں سجایا، بیٹی کی شادی کی تو قرآن کے سائے میں رخصتی کے لیے قرآن کو اٹھایا،بے اولادوں نے اولاد کی طلب کے کے قرآن پڑھا، پریشان حالوں نے پریشانی سے نجات کے لیے قرآن پڑھا، گھریلو معاملات سلجھانے کے لیے قرآن کی آیات کو تعویذ گنڈوں کے لیے استعمال کیا، کوئی بیمار پڑ گیا تو پانی پر دم کرنے لیے سورہ فاتحہ پڑھی، کسی عالم نے اگر قرآن کھولاتو صرف اس لیے کے اپنے فرقے کی بالا تری ثابت کر سکے اورمذہب کے نام پر اپنا کاروبارچلا سکے
آج کے دور میں مذہب کی آڑ میں جتنا نقصان اسلام کو جاہل عالموں اور جھوٹے پیروں نے پہنچایاہے شاید ہی کسی اور نے پہنچایا ہو،ہم نے قرآن پڑھنے اور سمجھنے کے لیے وقت نہ نکالا اورمولوی کو ہی خدا بنا لیا جومولو ی نے کہہ دیا اُسے ہی حق مان لیا خود سے کچھ تلاش نا کیااور جہالت کی زندگی گزارتے رہے، طالب علم نے اگر قرآن پڑھا تو مقصد صرف امتحان میں پاس ہونا تھا اُدھر امتحان ختم ہوئے اِدھر قرآن پڑھنا بند ہر کسی نے قرآن کو صرف اپنا لالچ پورا کرنے کی غرض سے پڑھا۔
چند روز پہلے کی با ت ہے کہ میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھاجو کچھ دیکھنے کو ملا وہ بہت حیرت انگیز تھا صبح کوئی آٹھ بجے کا وقت تھا ایک صاحب مسجد میں داخل ہوئے اور آتے ہی جلدی جلدی دو رکعت نماز یا نوافل ادا کیے اس کے بعد قرآن اٹھا یا اور میرے پہلو میں براجمان ہو گئے پہلی جماعت کا بچہ جس طرح الف انار اور ب بکری کو رٹا لگاتاہے اسی انداز میںچند آیا ت پڑھیں اور چلتے بنے اتنے میںایک اور صاحب مسجد میں وارد ہوئے انہوں نے نماز اور قرآن پڑھنے کا تکلف بھی گوارا نہ کیاصرف قرآن کو چومنے اور ہاتھ اُٹھا کر کچھ بڑ بڑانے پر ہی اکتفا کیا اور رفوچکر ہونے کے قریب تھے کہ ایک دوست نے اُنہیں آوازدی “بھائی صاحب !خیر ہی ہے آج بڑا قرآن کو چوما جارہا ہے”؟
آگے سے صاحب نے جواب دیا “یارآج پیپر ہے دعا کرنا” اور چلے گئے۔یہ ایک طالب علم کا حال ہے اس لیے کہا تھا کہ ایک طالب علم نے بھی قرآن کو صرف امتحان میں اچھے مارکس لینے کی غرض سے پڑھا،مولوی صاحب نے قرآن پڑھایا تو صرف اپنی مسجد چلانے کے لیے قرآن کے سینے میں موجود روشنی پڑھنے والے کے سینے میں منتقل نہ کی،جب کسی کا وقتِ قضا قریب آیا تو ہم پنج سورہ، سورہ یٰسین اور قرآن لے کر پڑھنے بیٹھ گئے کہ اس کی روح نہیں نکل رہی شاید ہم قرآن پڑھیں تو اس کی روح آسانی سے نکل جائے ۔ گر تمی خواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جزبقرآں زیستن
ہائے صد افسوس کے دیکھو ہم نے قرآن سے بھی مرنے کی راہیں ہی تلاش کیں اس کا حرف حرف اپنے اندر زندگی کی بہاریں سموئے ہوئے تھا لیکن ہم نے اس سے زندگی تلاش نہ کی ،جب گھر والوں،رشتے داروں اور دوست واحباب میں سے کوئی مر گیا تو ہم نے قرآن کو صرف ایصالِ ثواب کے لیے پڑھاقرآن کے نزول کا مقصد نا جانا۔میں اس بات سے انکا ر نہیں کر تا کہ یہ فیوض وبرکات قرآن کے دامن سے نہیں ہیں یہ سب کچھ قرآن کے دامن سے ہے لیکن میراسوال ہے آج کے بڑے بڑے علماء حضرات سے جو دین کے علمبردار ہیں
وہ مجھے بتائیں کہ کیا قرآن کے نزول کا مقصد یہ تھا؟کیا یہ اس دنیا کادستور نہیں تھا؟کیا اس میں نظامِ حکومت ونظامِ عدل، طرزِ معاشرت ، اخوت، مساوات، رواداری اور امن وامان کے اصول وقوانین موجود نا تھے؟ کیا زندگی کا سارا تانہ بانہ، حسن وجمال، رنگینیاں قرآن کے سینے میں نا تھیں؟کیا ہم صرف نام کے مسلمان نہیں رہ گئے؟کیا ہمارے کام درندوں سے بھی بد تر نہیںہیں؟کیا یہ قرآن وہی نہیں جو آج سے چودہ سو سال پہلے تھا؟سبھی سوالوں کا ایک ہی جواب ہو گا سب کچھ وہی ہے آج ہم وہ نہیں رہے ہم نے اپنے اسلاف سے پائی ہوئی میراث کو گنوا دیا۔ گھر یہ اُجڑا ہے کہ تو رونقِ محفل نہ رہا