مسلم اقلیت نظر نہیں آتی؟

Muslims

Muslims

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس

دنیا بھر میں انسانی حقوق کی ٹھیکیدار تنظیمات کو ہر اقلیت کا اس ملک میں دکھ اور اس پر خوردبینی زیادتی نظر آ جاتی ہے جہاں مسلم اکثریت آباد ہے ۔ لیکن دنیا بھر میں مسلمانوں پر بطور اقلیت جو جو خوفناک مظالم ڈھائے جاتے ہیں یا ڈھائے گئے ہیں اس سے یہ تنظیمات خود کو اندھا گونگا اور بہرا کیسے کر لیتی ہیں ؟

کیا پسند کی شادی کر کے مسلم ہونے والی لڑکی کا غم اس سے زیادہ ہے جہاں مسلم عورتوں اور بچیوں کیساتھ اجتماعی زیادتی کے جرائم اعلانیہ کیئے گئے۔

کیا کسی غیر مسلم کا کہیں کسی جھگڑے میں مارا جانا اس سے زیادہ بڑی خبر ہے جہاں بیگناہ معصوم لوگوں کو محض مسلم ہونے کی پاداش میں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر عالمی میڈیا نے خوب خوب داد سمیٹی؟

کیا یورپ اور امریکہ جو کسی جھوٹے انسان کو محض غیر مسلم اقلیت کا لیبل دیکر کیش کرانے اور اس مسلم ملک کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے کشمیر ، فلسطین اور روہنگیا کے ہاں خوفناک جنگی جرائم کا شکار ہونے والے یتیم بچے عورتیں مرد نظر نہیں آتے ؟

کیا ببوسنیا اور شام میں قتل ہونے والے مسلمان انسان نہیں تھے؟

کیا یورپ بھر میں امریکہ میں تعصب کے ہاتھوں قتل ہونے والے اور بے عزت ہونے والے اقلیتوں کا شمار انسانوں میں نہیں ہوتا کیونکہ وہ مسلمان تھے۔

کاش کہ عالمی انسانیت کے ٹھیکیدار انسانیت کے عظیم فلسفے میں جانبداری کا زہر نہ گھولتے تو شاید دنیا امن کا گیوارہ ہوتی ۔

غیر مسلم قوتوں نے ہمیشہ اقلیتیوں کے لیئے آواز سیاسی شعبدہ بازی کے طور پر اٹھائی ۔ حکومتوں کو بلیک میل کرنے کے لیئے اور اپنے وقتی مفادات کے حصول کے لیئے۔ ورنہ ابو الغریب کی جیل میں صرف مسلمان ہونےکی پاداش میں انسانوں کو غیر انسانی سلوک کا شکار نہ بنایا جاتا ۔ ورنہ افغانستان میں چالیس سال سے انکے قتل عام اور تباہی کو بھی عالمی جرائم میں شمار کیا جاتا اور عالمی طاقتوں کو اس کا جواب اور حساب دینا پڑتا ۔

لیکن مسلمانوں کے لیئے ایک دوسری عدالت کا فیصلہ اور اس کی حقانیت پر انکا یقین ہی انکی اصل طاقت ہے ۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمات اپنی جعلسازی جاری رکھیں ۔

دنیا بھرمیں یہ ڈرامہ انسانی حقوق تنظیمات مسلم اقلیتوں کے اوپر ہونے والے مظالم پر منہ میں گھ گھنیا ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں اور جہاں ان کے کانوں پر ڈالرز اور یوروز کی چوٹ پڑتی ہے تو غیر مسلموں ہی کیا ان کے کسی کتے کی موت پر آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے ۔ پھر چاہے وہ غیر مسلم خود ہی چیخ چیخ کر کہتا رہے کہ میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا لیکن یہ بینڈ خاموش ہونے کا نام نہیں لیتا ۔ جب تک کہ کسی مسلم ملک کو باقاعدہ نشانہ بناا کر اس جرم میں نشان عبرت نہ بنا دیا جائے ۔ اور اس کی عوام کو دنیا بھر میں زرخرید میڈیا کے ذریعے خوب بدنام نہ کر لیا جائے ۔ سچ کہیں تو آج کے دجالی فتنہ پرور میڈیا کا کام ہی مسلمانوں کی نسل کشی اور انہیں ہر لحاظ سے نقصان پہنچانا ہی ہے ۔ کیونکہ اسے چلانے والے غیر مسلم عالمی اجارہ دار اسے اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر ہی انجام دیتے ہیں ۔ جب مسلمان ایسا کوئی مذہبی فریضہ ادا کرنا چاہے تو اسے دہشت گرد قرار دیکر دیوار سے لگا دیا جاتا ہے ۔ انسانی حقوق کا نام لیکر ایسا تماشا دنیا کے لیئے کوئی نئی بات نہیں ۔۔۔۔۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس