تحریر : انجینئر افتخار چودھری دوستو!تیار ہو جائو ایک نئی تنظیم جو پہلے وہاں شام عراق میں سر گرم تھی اب اسے بھی پاکستان میں متعارف کرایا جا رہا ہے وہ ہے داعش دولت اسلامیہ۔اس کے بارے میں اب ہمیں ہمارا میڈیا بتائے گا کہ یہ تنظیم انقلابی جد و جہد کے لئے پاکستان پہنچ چکی ہے۔ یہ تازہ فراڈ ہے۔آپ نے یہ سن لیا ہو گا کہ اے آر وائی پر حملے کی ذمہ داری دعش نے قبول کر لی ہے۔ مجھے ایک عام شہری کی حیثیت سے سوال کرنا ہے کہ نائن الیون سے پہلے کیا کوئی القاعدہ کا نام جانتا تھا ؟دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجئے نہیں نہیں جواب ہو گا اور پھر ہوا کیا ایک دو سالوں میں وہ سب کچھ ہو گیا القائدہ کو ایک دشمن بنا کر کھڑا کر دیا گیا عراق کو ایٹمی کیمیاوی ہتھیاروں کا مسکن۔بن لادن کو ایک عفریت۔یہ تھا میڈیا کا کمال دنیا بھر کا میڈیا داڑھی کو دہشت کی علامت بنا کر دکھاتا رہا اور ایک دن وہ بھی آیا کہ ہمارے لوگ بھی سچ ماننے لگے اسلام کی تصویر ملا ریڈیو کی صورت میں تحریک طالبان کی شکل میں بنا کر پیش کی گئی۔
القائدہ کا نام اس قدر نفرت کا ماڈل بناکر سامنے لایا گیا کہ لوگ عربی قاعدہ بھی خریدتے ہوئے ڈرنے لگے سچ وہ تھا جو واشنگٹن نے کہا باقی سب جھوٹ اور اب کوئی نام نہیں لیتا حافظ سعید نے کہا تھا کہ دو عمارتیں گرا کر ساری دنیا کی دولت قبضے میں کر لی اور اب تیل کی قیمت اس قدر گرا دی کہ سعودی معیشت کا بیڑہ غرق ہونے کے قریب ہے اس کے اوپر دولت اسلامیہ کا ڈرامہ۔اصل حدف سعودی مملکت کے تین ٹکڑے کرنا ہے۔
یاد رکھئے امت مسلمہ کو شیعہ سنی کی لڑائی میں دھکیلنے کی سازش ہو رہی ہے۔دعش آ گئی دعش نے اے آر وائی پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔سب فضول باتیں ہیں۔ہمیں یاد ہے ذرا ذرا جب کبھی بم دھماکہ ہوتا تھا طالبان کی ذمہ داری قبول کرنے کی نوید رحمان ملک سنایا کرتے تھے اور اب میڈیا،چودھری نثار علی خان وہ کام تو نہیں کریں گے جو رحمن ملک کرتے رہے لیکن وزارت داخلہ کو چکرا کے رکھ دیا جائے گا۔
Jamaat ud Dawa
پچھلے دنوں یہ بھی شوشہ چھوڑا گیا کہ جماعت الدعوہ کے لوگ دعش میں شامل ہو گئے ہیں۔ہے کوئی سر اور پیر اسی جماعت کے سربراہ نے خودکش حملے کرنے والی تنظیموں کو تکفیری فرقہ قرار دیا تھا انہیں اسلام کے دائرے سے بھی باہر کہا گیا تھا۔یہ سازش تھی ہند کی کہ وہ جماعت کو دہشت گرد ثابت کرے۔ ہشیار رہئے میڈیا کے ان زر خرید غلاموں کو جنہیں پٹھانکوٹ کی اتنی فکر ہے کہ وہ مرے جا رہے ہیں اور اجمل قصاب کی طرح یہیں سے ملزم پکڑ کر پیش کرنے کی سعی کر رہے ہیں اپنا کامرہ اور مہران بیس بھول گیا ۔شیطان صفت درندوں کی وہ کاروائیاں جو آرمی پبلک اسکول میں ہوئیں اب تو لگتا ہے آرمی اپنے تئیں ان شہداء کو زندہ رکھے ہوئے ہے ورنہ حکومت تو انہیں بھول چکی ہے آفرین ہے کے پی کے حکومت کا جس نے ان کی اشک شوئی کی۔
ان تازہ خدائوں میں فتنہ دولت اسلامیہ ہے جسے دعش کا نام دیا جا رہا ہے در اصل یہ پلیٹ فارم ان سنی العقیدہ لوگوں کے لئے کھڑا کیا گیا ہے جو خلافت کے نام پر دنیا میں خونریزی چاہیں گے ان کی سر عام مذمت سعودی مفتی اعظم کر چکے ہیں پھر اس فتنہ حاظر کے مقابل شیعہ قوتیں کھڑی کی جائیں گی جن کی پشت پر ایران کو کھڑا کیا جائے گا۔ان جماعتوں کی تشکیل کرنے کی کامیابی کے بعد دے مار تے ساڑھے چار پھر لاشیں اٹھاتے جائیں اور دفناتے جائیں یہ شہید وہ کافر اور وہ کہیں گے کہ ہم شہید وہ کافر۔
یہ سب کچھ مسلمان ملکوںمیں ہی کیوں ہو رہا ہے؟ ہمیں ہی کیوں مارا جا رہا ہے ۔یورپ یہ خونریزی دیکھ چکا ہے لگتا ہے اب ہماری باری ہے ۔یہ باری ہم ربع صدی سے بھگتائے جا رہے ہیں۔ہم کیوں مریںغیر مسلمان کیوں محفوظ ہیں؟ ہمیں اس بات کا شوق نہیں کہ وہ بھی مریں لیکن اس بات کا تو شکوہ ہے نہ کہ ہم ہی کیوں۔آج تو ڈنمارک نے بھی خبث باطن کا مظاہرہ کیا ہے اور اس نے شامی مہاجرین کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنا شروع کیا ہے ۔غنڈہ ٹیکس ۔کہاں پاکستان جس نے ٤ ملین افغان پالے ۔ دعش ایک فتنہء تازہ جو ہم پر مسلط کیا جا رہا ہے اس کا سد باب کیجئے جھوٹوں کا منہ بند کیجئے۔