ملالہ کی کتاب اور کہانی

Muslims

Muslims

صاحبو! مسلمانوں نے اپنے عروج کے دوران عیسائیوں اور مجوسیوں سے اقتدار چھینا تھا جسے اسلامی دنیا میں عام فہم طور پر لوگ قیصرو کسرا کے نام سے جانتے ہیں مجوسی تو دنیا کے سین سے غائب ہو گئے مگر عیسائی دنیا نے مسلمانوں پر دوبارہ غلبہ حاصل کیا اور وہ اُس وقت سے دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف کاروائیاں کرتے رہتے ہیں اس میں مشہور ،صلیبی جنگیں ، سازشوں سے اسلامی ملکوں پر قبضے ، فتنہ قادیانیت کا اجرا،یہودی ریاست اسرائیل کا قیام، لارنس آف عریبیہ طرز کی سازشیں اور آخر میں مسلمانوں کی خلافت کو ختم کرنا شامل ہے انہوں نے مسلمانوں کو دنیا میں تتر بتر کر کے راجوڑوں میں بانٹ دیا جو اسوقت بھی دنیا میں ٦٦ مملکتوں کی شکل میں موجود ہیں۔ اللہ کا کرنا کہ دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے ایک سلطنت قائد اعظم کی انتھک جد وجہد کی وجہ سے مذہب کے نام سے قائم ہو گئی اورحالات کے مدر جزر سے گذرتے گذرتے پاکستان اسلامی دنیا کی پہلی اور دنیا کی ساتویںایٹمی قوت بھی بن گیا۔

مسلم دنیا کی فطری لیڈر شپ پاکستان کو مل گئی جو عیسائی دنیا کو کسی حالت میں یہ بھی منظور نہیں۔ سرد جنگ کے بعد مسلمانوں کے خلاف تازہ سازش نائن الیون کی تیار کی گئی اور اس آڑ میں مسلم دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی جس میں پاکستان سرفہرست ہے۔( عالمی یہودی جادوگرمیڈیا لفظ عیسائی کہنے کے بجائے مغرب کااستعمال کرتا ہے جو حقیقتاً عیسائی ہیں اس لیے ہم نے مغرب کے بجائے اپنے مضمون میںلفظ عیسائی استعمال کیا تاکہ بات واضح ہو جائے )اسی سازشی کہانیوں،سلمان رشدی،تسلیمہ نسرین ،مولی نورس اور عیسائی ملکوں میں ہمارے پیارے پیغبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں آزدی رائے کی آڑ میں مسلمانوں کی دل آذاری کرنا ہے ان میںسے ایک کہانی ملالہ کی بھی گھڑی گئی ہے قصہ کچھ یوں ہے کی ملالہ کے دادا سوات سے کوئی چالیس کلومیٹر دور ایک قصبے میں مسجد کے امام تھے ملالہ کے والدضیا ء الدین یوسف زئی کی مذہب سے نفرت پر اسے تشویش تھی گھر میں اکثر باپ بیٹے میں جھڑپ ہوتی رہتی تھی بیٹا اپنے والد کے عقائد کا مذاق اڑاتا اور اسے تنگ کرتا تھا وہ اپنے والد کی نافرمان اولاد تھا اس وجہ سے والد نے اُسے گھر سے نکال دیا تھا وہ اس کے بعدمینگورہ میں آباد ہو گیا شادی کی اور اپنا ایک خوشحال پبلک اسکول بھی قائم کیامینگورہ کے مقامی لوگوں کے مطابق وہ ایک لالچی شخص تھا جہاں سے چار پیسے مل سکیں خواہ عزت کا فالودہ بن جائے۔

سوات پر طالبان کا غلبہ ہوا تو اس کی بن آئی۔ ایک این جی او گلوبل پیس کونسل کے صدر ہیں امریکی این جی اوز سے طالبان مخالفت کے نام پر بھر پور امداد وصول کرنی شروع کی۔ اسی دوران وہ امریکی سی آئی کے ہتھے چڑھ گیا اسی زمانے کی یوسف زئی اور ان کی بیوی کی ر چرڈ بالروک، مارٹن جونزبرگیڈئیر اور سی آئی اے کے اہلکاروں کے ساتھ میٹنگ کی تصاویر جب سوشل میڈیانے جاری کیں تو ملالہ کہانی کی سازش ہونے کے شواہد کانفرم ہو گئے سوشل میڈیانے ایک تصویر میں ملالہ اس کے والد اوروالدہ کی تصویر جاری کی جس میں امریکی فوجی حکام کے ساتھ اجلاس میں شریک ہے یہ ساری تصویریں ملالہ پر حملے کے پہلے کی ہیں طالبان کے سوات میں غلبے کے زمانے میں بی بی سی کے ایک مقامی رپورٹر جو یوسف زئی کے دوست تھے سے فرضی نام گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھوانی شروع کی گئی مقصد سوات کی جنگجوئوں کی آڑ میں طالبان کو نفرت کا نشانہ بنانا تھاڈائریوں کی مقبولیت کے بعد یہ بی بی سی کا بیورو جیف ترقی پا کر نیوز پروڈیوسر بن گیا اس مشن کے عوض ملالہ کے والد کو امریکی برطانوی این جی اوز سے بھاری رقم کی امید دلائی گئی۔

Pakistan

Pakistan

شہرت الگ ملی اسی دوران ایک تصویر جاری ہوئی امریکی جرنلسٹ اپنا چہرہ پٹھانوں جیسے یعنی داڑھی اور سر پر پٹھانی ٹوپی پہنے سوات میں یوسف زئی کے ساتھ جاری ہوئی یہ شخص اور نہ جانے اور کتنے اشخاص آزادانہ پاکستان مخالف رپورٹنگ کرتے رہے جس کی تصویر سوشل میڈیا یوسف زئی اور ملالہ کے ساتھ جاری کیںجس سے اس سازش کی نشان دہی ہوتی ہے کالم نگار شہزاد عالم کے مطابق سوات میں دہشت کے دور میں ملالہ اپنے والد کے ساتھ ایبٹ آبا میں مقیم تھی جب اپنے والد کے ساتھ سوات واپس آئی اورامن کے بعد٢٠٠٩ء میں اخپل کور ماڈل اسکول میں امن کمیٹی کا ایک اجلاس ہوا جس میں یوسف زئی صاحب بھی شامل تھے اس میٹنگ میں مقامی سواتی حضرات نے جس میں غلام قادر سپین دادا نے ضیاء الدین یوسف زئی کو کھری کھری سنائیںاور سرزنش کی اور کہا کہ اس سازشی کھیل کو ختم کرو!یہ ہیں ملالہ کہانی کے مقامی چشم دید لوگ جن کے خیالات ہم نے قلم بند کئے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ چاند اخبار سوات میں مرزا عبدالقدوس کے ایک مضمون میں ایبٹ آباد سے سے ملالہ کی سوات واپسی کو ایک نئی سازش کاتانابانا کہا گیا تھا۔ میڈیا کے مطابق جنوری ٢٠٠٩ء کے با لکل شروع میں کسی تحریک طالبان نامی مسلح گروہ نے سوات میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگاتے ہوئے اعلان کیا ک جنوری ٢٠٠٩ء کے بعد لڑکیاں اسکول نہ جائیں یہ اعلان پہلے ہوا جبکہ اسکول نہ جانے کی ڈیڈ لائن ١٥ جنوری دی گئی ایسے حالات میں سوات سے تعلق رکھنے والی ایک ساتویں جماعت کی طالبہ ملالہ یوسف زئی نے ٣ جنوری ٢٠٠٩ء سے اپنی ڈائری لکھنی شروع کی پھر ٩ جنوری ٢٠٠٩ء سے قسط وار شائع ہونی شروع ہوئی اور ١٣ مارچ ٢٠٠٩ء کو شاید آخری اوردسویں قسط شائع ہوئی۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ ڈائری بی بی سی کا مقامی رپورٹر ملالہ سے گفتگو ریکارڈ کرتے پھر اپنے الفاظ میں تحریر کر کے بی بی سی کی ویب سائٹ پر گل مکئی کی ڈائری کے نام سے اپ لوڈ کیا کرتے تھے یہ اس وقت کی بات ہے۔

جب پاکستانی حکومت اور فوج نے ٢٠٠٩ء میں طالبان سے ایک امن معاہدہ کیا تھا جس کی مخالفت امریکا اور یورپ نے کی تھی تب اس پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا یہ ڈائری کیا تھی ملالہ کہتی ہیں برقعہ پتھر دور کی نشانی ہے داڑھی والے دیکھ کر فرعون یاد آتا ہے میں اسکول جانے کے لیے یونیفارم پہن رہی تھی تو مجھے یاد آیا پرنسپل نے سادہ کپڑے پہننے کا کہا تھامیں اپنا پسندیدہ گلابی رنگ کا لباس پہننے کے لیے نکالا اسکول کا ماحول گھر جیسا لگتا تھا میری ایک سہلی کہا طالبان ہمارے اسکول پر حملہ کر دیں گے صبح کی اسمبلی میںہمیںکہا گیا کہ رنگین لباس پہن کر نہ آئیں طالبان اس پر اعتراض کرتے ہیں شام کو ٹی وی پر سنا کی شکردرہ سے کرفیو اٹھا لیا گیا ہے مجھے خوشی ہوئی کہ انگریزی کی اُستانی جو کرفیو والے علاقے میں رہتی اب اسکول آیا کرے گی۔

پھر لکھا کہ طالبان نے ایسا کیا۔ آج فوج نے ویسا کیا۔ یہ یہ ہوا اور میرا دل یہ یہ کہتا ہے ۔ چند جملوں میں فوج پر تنقید کی گئی تھی اس ڈائری کی وجہ ملالہ کو عالمی شہرت حاصل ہو گئی مقامی اور بین الاقوامی ابلاغ میں شائع ہونے لگیں ملالہ پر بین الااقوامی میڈیا کے دو ادروں نے فلمیں بھی بنائیں نومبر ٢٠١١ء میں پاکستان کے وزیراعظم نے یوسف رضا گیلانی صاحب نے اعلان کیا کہ ملالہ یوسف زئی کو سوات میں طالبان کے عروج کے دور میں بچیوں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے یعنی ڈائری لکھنے پر ”امن ایوارڈ” اور پانچ لاکھ روپے دیے جائیں گے پختوخواہ کی صوبائی حکومت نے بھی پانچ لاکھ کا اعلان کر دیا۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر: میرافسر امان