تحریر : مولوی محمد صدیق مدنی دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ” اسلام ” دنیا کا سب سے ترقی یافتہ مذہب ہے۔ مسلمان دنیا کی فاتح نمبر ون قوم تھی، لیکن ١٢ویں صدی میں نقشہ بالکل بدل گیا ہے، انگریزوں نے ہر سطح پر اسلام اور اس کے ماننے والوں کو محدود کر دیا ہے۔ مسلمنا دنیا کی مظلوم ترین قوم بن گئی ہے، دنیا کے ہر خطے میں مسلمان موجود ہیں مگر پریشان حال ہیں، ہمارے اسبابِ زوال کی ایک لمبی فہرست موجود ہے، جس میں سرِ فہرست ہمارے آپس کے اختلافات و انتشار ہیں۔ ہمارے داخلی اختلاف سے دشمنوں کو نہ صرف ہم پر فوقیت ہو رہی ہے بلکہ ہمارے خلاف شب و روز کے ہر لمحے میں ان کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ اسلام کو روئے زمین سے نیست و نابود کرنے کے نصوبے بنائے جا رہے ہیں۔سارے کا سارا کفراسلام کے خلاف متحد ہو چکا ہے لیکن مسلمان اب تک اس تلخ حقیقت کا ادراک نہیں کر سکے ہیں، صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پہلے کبھی کسی موقعے پر یہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں سے نبرد آزما ہونے کی سوچتے تھے مگر آج ہر محاذ ، ہر سطح پر ہمیں پیچھے ڈھکیلنے کی سازشوں میں ہمہ تن مصروفِ عمل ہیں۔ ملک میں بھی ایسی ہی کاریگری کا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے، کہ الیکشن کا زمانہ آیا انہیں عوام کی یاد نے ستایا پھر الیکشن ختم اور عوام بھولی بسری ہوئی کہانی بنا دیئے گئے۔
یہ ہماری سیاسی عدم بصیرت سے نہ صرف وسیع پیمانے پر پھلتے پھولتے ہیں بلکہ ایک جامع منصوبہ بند حکمتِ عملی کے ساتھ عوام کی محرومی سے کھیلتے بھی ہیں۔ ہمارے زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں انفرادی شخصیات کو اوروں پر فوقیت مل گئی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ادارے انفرادی شخصیات سے بہت بڑھ کر ہوتے ہیں۔ ہماری سب سے بڑی پریشانی یہی ہے کہ ہم ادارے کی معنوی قوت و افادیت کو اپنی انفرادی حیثیت تلے دبا دیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ادارے اپنا مرکزی کردار ادا نہیں کر پاتے، ہمارے قائدین کو اس حوالہ سے سنجیدگی کے ساتھ سوچنا اور غور و فکر کرنا چاہیئے اور قوم کی خدمت شخصیت اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر کرنا چاہیئے، صاف لفظوں میں یہ کہ اگر ہمارے قائدین عوام کے تئیں فکر مند ہیں تو انہیں اپنی ” انا ” اور شخصیت کے لبادے کو اتارنا ہوگا اور یک قوم ہوکر عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لئے میدان میں آنا ہوگا۔یوں تو کہنے کو 56سے زائد آزاد اسلامی ممالک خطہ ارضی پر موجود ہیں ، اور ایک ارب بیس کروڑ سے زیادہ آبادی اور بے شمار وسائل و معدنیات بالخصوص پیٹرول جیسی نعمت سے مالا مال ہیں، تاہم بوجوہ ضعف و ادبار گزشتہ کئی صدیوں سے ہم پر مسلط ہے اور دیگر اقوامِ عالم بالخصوص مغربی استعمار کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔9/11کے واقعہ نے عالمِ اسلام کو غلامی کی ایک نئی راہ پر پٹخ دیا ہے۔
یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس واقعہ کے پسِ پردہ کیا حقائق تھے؟ کون اس کا ذمہ دار تھا؟ امریکا جیسے طاقتور ملک میں اس قدر آزادی کے ساتھ فضائی حملوں کی منصوبہ بندی کن قوتوں نے کی؟ اور اتنی آسانی سے ٹوئن ٹاور اور پینٹا گون وغیرہ کو کس نے ہدف بنایا؟ البتہ اس واقعہ نے صلیبی جنگوں کا احیا کر دیا اور آج کئی برس گزر جانے کے باوجود بھی امریکا اور اس کے حواریوں کی آتش انتقام ٹھنڈی نہیں ہو رہی ہے۔اسی جوشِ انتقام میں عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور اسلام و ملک دشمن غداروں کی خفیہ حمایت سے نہ صرف لاکھوں مسلمان مردوں، عورتوں اور معصوم بچوں کا قتل عام کیا گیا ااور عراق سمیت کئی اور ملکوں کی دفاعی اقتصادی و معاشی خوشحالی اور استحکام کو پارہ پارہ کر دیا گیا۔ مگر عالمی مسلم برادری خاموش تماشائی بن کر یہ تمام مظالم دیکھ رہی ہے اور کوئی اس بدمست ہاتھی کو نکیل ڈالنے والا نہیں۔ اسی طرح افغانستان جیسے سنگلاخ چٹانوں اور کمزور ترین ملک کوستائیس ملکوں کی مسلح افواج تمام تر ٹیکنالوجی کی برتری کے ساتھ پامال کیئے ہوئے ہیں۔ ہمارے اپنے ملک میں دہشت گردی، ڈرون حملے انہی کے ایماء پر کئے جا رہے ہیں۔ حکمرانوں کے لاکھ جتن کرنے کے باوجود وہ ڈرون حملے بند کرنے کی حامی نہیں بھر رہے اور بے گناہوں ، بے قصوروں کا خونِ ناحق بہا رہے ہیں۔ کہنے کو ہم دہشت گردی کے معاملے میں اْن کے اتحادی ہیں مگر ہماری بھی وہ کچھ سننے کو تیار نہیں۔
Wake up Muslims
تادمِ تحریر ہم خود ہی آپس کے نا اتفاقی اور فرقہ پرستی اور دوسرے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ اور ہماری اس کمزوری سے ہمارے دشمن خوب خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ گو کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے لوگ کبھی ایک گلدستہ کی صورت میں رہا کرتے تھے مگر آج ایک دوسرے سے مختلف فرقوں، مذاہب، زبانوں کی وجہ سے نفرت کر رہے ہیں، دیکھا جائے تو ایک کامیاب باغبان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ تمام قسم کے پھولوں کی یکساں طریقے سے آبیاری اور دیکھ ریکھ کرے۔ اس کائنات کا پیدا کرنے والا ایک ہی خدا ہے اور اس کی پیدا کردہ انواع و اقسام کی چیزیں اور نعمتیں بلا کسی تمیز کے ہر انسان کے لئے وقف ہیں، سورج کی روشنی، ہوا، پانی، چاند کی چاندنی، سردی یا گرمی کے اثرات اور رزق کی فراہمی وغیرہ میں اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے درمیان تقسیم میں کسی قسم کی امتیازی پالیسی کو روا نہیں رکھا ہے۔ بالکل اسی طرح سے ایک نظام حکومت چلانے والوں پر بھی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بھی قانونِ قدرت کی تقلید میں انتظامیہ، عدلیہ، قوانین و مسائل کے حل میں ایک جیسی نظر رکھے اور کسی بھی فرقہ یا مذہب کے لوگوں کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ برتے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ کسی بھی جگہ یا کسی بھی علاقے میں فرقہ واریت یا مذہب کے نام پر فسادات کھڑا کرنے والوں کے ساتھ سختی سے پیش آئے۔
ایسی کوئی چنگاری بھڑک اْٹھے تو اس چنگاری کو فوراً دبانا چاہیئے تاکہ سارا ملک اس آگ سے محفوظ رہ سکے۔ہم اس وقت اکیسویں صدی میں محوِ سفر ہیں لیکن ہماری سوچ اور فکر میں ابھی کوئی خاص تبدیلی پیدا نہیں ہو رہی ہے۔ ہمیں اس وقت ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں داخل ہونے کی ضرورت ہے نہ کہ مذہبی ، سیاسی بنیادوں پر ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بننے کے در پے رہنا چاہیئے۔اسلام ایک فطری مذہب ہے جس نے اپنے ماننے والوں کو بہتر سے بہتر اْصو ل و ضوابط عطا کیا ہے جو زندگی کے ہر شعبہ کو محیط ہیں۔ انسان خواہ مرد ہو یا عورت اگر اسلامی اصولوں پر عمل کرے تو دنیا و آخرت دونوں سنور سکتی ہے اور صاف ستھرا معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے اور انحراف و روگردانی کی صورت میں ایک عالم تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے
کیونکہ اسلام کے اصول و قواعد قرآنِ کریم و احادیث شریفہ سے مستنبط ہیں اور غلطی و چوک سے پاک ہیں اور بندے کے اندر اللہ کا خوف اور رسول اللہ کی محبت پیدا کرتے ہیں اور معاشرے میں امن و امان، چین و سکون ، الفت و محبت، ہمدردی و بھائی چارگی، اتحاد و یکجہتی کی فضا ہموار کرتے ہیں۔ اور پورے معاشرے کو عدل و انصاف کے ساتھ صاف ستھری زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسلامی اصولوں کے حاملین و خوفِ خدا سے لرزنے والے اور حْبِ رسول للہ سے سر شار حضرات جہاں کہیں بھی رہتے ہیں تو صرف اپنے ہی لوگ نہیں بلکہ ہر طبقہ کے لوگ اپنے جائز حقوق پاتے ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ مصنوعی آلات سے خوف پیدا کرنے کے بجائے اپنے مالکِ حقیقی کا خوف پیدا کریں جو بھیدوں تک کا جاننے والا ہے کیونکہ بغیر خوفِ خدا و عذابِ آخرت کے ہم ترقی، امن و امان، اور چین کی بانسری نہیں بجا سکتے۔