21 ویں صدی میں جو ہو جائے وہ کم ہے

Land Of Pakistan

Land Of Pakistan

کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہماری سر زمینِ پاکستان پر اِنسان تو اِنسان مگر دین اِسلام کے جو خود پکا و سّچا مسلمان ہونے کے دعویدار و ہ بھی معصوم اِنسانوں کے خون کے ایسے پیاسے بنے ہوئے ہیں کہ اِن کی اِس فعلِ شنیع سے جہاں زمین تھّرا گئی ہے تو وہیں آسمان بھی مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا گلاکٹتے دیکھ کر ٹوٹنے کو ہے مگر مسلمان کہلوانے والے تو اپنے مسلمان بھائی کا گلا کاٹنے سے باز ہی نہیں آرہے ہیں اور اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ایسے مصروف ہیں کہ اِنہیں عورتوں، بچوں اور بڑھوں پر ذرابھی رحم نہیں آرہاہے ہمارے یہاں تو جیسے مسلمان کہلانے والے اِنسانوں نے معصوم اِنسانوں کو بم دھماکوں سے اُڑاکر موت کی وادی میں دھکیل کر قبرکی آغوش میں پہنچا دینے کو اپنے دین کی خدمت سمجھ رکھا ہے۔

آج ایک طرف تو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرکے اِنسانوں کے گلے کاٹنے والے موجود ہیں تو وہیں اِسی سر زمینِ خدا پر ایسے آدمخور درندے بھی موجود ہیں جن کی خصلت اور جبلت میں ہی اِنسان کا گوشت مرغوب غذاتصور کیا جاتا ہے بیجنگ سے ایک خبریہ آئی ہے کہ ” شیر نے بیروزگار نوجوان کو کھانے سے انکار کر دیا”خبر کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایک چینی اخبار چنگ ڈوبزنس ڈیلی کی رپورٹ کے مطابق چین کے جنوب مغربی صوبے سیچوان کے چنگ ڈوکے چڑیا گھر میں یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک 27 سالہ بیروزگاری سے تنگ یانگ جن ہائی نامی نوجوان نے درخت پر چڑھ کربنگال ٹائیگرز کے پنچرے میں چھلانگ لگادی اور خود کو آدمخورشیروں کی جوڑی کے سامنے ڈال دیا، تاہم شیروں نے اِس کی حالتِ زارپر ترس کھایا اور اِن آدمخور شیروں کی جوڑی نے اِس بیروزگار نوجوان کو اپنا نوالہ بنانے سے بھی انکار دیا

جب شیروں نے اِسے کھانے سے انکار کر دیا تو اِس نوجوان نے ایسی بہت سی اُوٹ پٹانگ حرکتیں بھی کرنا شروع کر دیں کہ جن کے کرنے سے اِن آدمخور شیروں کو غصہ آجائے مگر بظاہر آدمخور مگر اندر سے گزرے وقتو ں کے اچھے اِنسانوں کی طرح نرم دل رکھنے والے اِن خداترس شیروں کو اِس بیروزگار نوجوان کی حرکتوں پر ذرابھی غصہ نہ آیا اور وہ ایک کونے میں بیٹھ کر اپنی زندگی سے تنگ اِس بیروزگار نوجوان کی حرکتوں سے محظوظ ہوتے رہے اور دیکھنے والوں نے یہ بھی دیکھا کہ جیسے آدمخور شیروں کی یہ جوڑی دنیا کے ظالم اِنسانو ں(شدت پسندوں) اور ہمارے وزیراعظم میاں نواز شریف جن کی جماعت کا انتخابی نشان بھی شیر ہے اِن سمیت سب کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خداکے واسطے اِنسانوں تم اپنے جیسے انسانوں پر تو ترس کھاؤ۔تم کسی کے مقدس خون سے اپنے ہاتھ تومت رنگوں اور اگر اِسی طرح تم کہیں کہ وزیراعظم ہو اور تمہارا انتخابی نشان شیرہے تو اللہ کے لئے لوگوں کو بیروزگار کرنے کے ایسے اقدامات تونہ کرو اور اپنے قومی اداروں کی یوں کوڑیوں کے دام نج کاری کرکے لوگوں کے پیٹ پر تو لات مت مارو۔۔۔ کہ وہ بیروزگار ہوجائیں اور پھر یہ بھی اِس بیروزگار نوجوان کی طرح اپنی زندگی سے تنگ ہوکر ہمارے سامنے ہوں اور اِن کی خواہش ہوکہ ہم اِن کے خون سے اپنے ہونٹ رنگیں تو یہ ہمیں گوارہ نہیں ہم کو دیکھو کہ زمانہ ہمیں شیر کہتا ہے ہم سے ڈرتاہے مگر دیکھو کہ ہم بھی تم جیسے اِنسانوں کی طرح نہیں ہیں

ہم اپنے مفادات کے خاطر اِنسانوں کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھائیں اور اِن کے گوشت سے اپنا پیٹ بھریں اے اِنسانو۔ ہم بھی یہ خوب سمجھتے ہیں کہ آج اِنسان ہی اِنسان کے ہاتھوں پریشان ہے، کہیں کوئی اِنسان، اِنسانوں کو اپنے گھناؤنے عزائم کی تکمیل کے خاطر ذبح کر رہا ہے تو کہیں کوئی اِنسان کاغذی شیربن کر قومی اداروں کو اپنے کاروباری مفادات اور فائدوں کے لئے کوڑیوں کے دام فروخت کر کے اِنسانوں کو بیروزگار کرنے پر تلا ہوا ہے”شیروں کی جوڑی نے اِس بیروزگار جونوان کو نہ کھانا تھا اُنہوں نے نہ کھایا مگر آج کے اُن اِنسانوں کے منہ پر ایسا زوردار طمانچہ زور مار دیا ہے جواِ نسان اور مسلمان بن کر اِنسانوں کے ہی خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں اور جو اقتدار میں آنے کے بعد لوگوں کو بیروزگار کرنے کی منصوبہ بندیاں کر رہے ہیں۔

بہرکیف..! آج زمینِ خداپر اِنسان کے ہاتھوں جو ہو جائے وہ بھی کم ہے کیوں کہ آج ہم جس انوکھے انداز اور وسعت پذیر سوچوں کے ساتھ 21 ویں صدی سے گزر رہے ہیں اِس میں جو ہو جائے وہ بھی کم ہے، گرچہ آج اِنسان کا دعویٰ ہے کہ اِس نے اپنے کارناموں سے 21 ویں صدی کو زیرِ پاکر کھا ہے مگرحالات واقعات اِس بات کے گواہ ہیں کہ یہ بھی اِنسان کی محدود سے محدود ترسوچ ہے آج دراصل اِنسان اپنے جس دعوے پر غرور کر رہا ہے یہ بھی اکیسویں صدی کی ایک انوکھی مگر ضعیف سوچ ہے، یہ سچ ہے کہ اِس صدی میں جو ہو جائے وہ کم ضرور ہے مگر اِسی کے ساتھ ہی آج کے اِنسان کو اِس بات کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے کہ اِس صدی میں ہر لمحے جس انہونے اور انوکھے کرشمات اور واقعات کی پیشنگوئیاں کی گئیں ہیں ابھی تو یہ اِس کاعُشرِ عشیرہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

بہرحال ..! یہ اکیسویں صدی کا ہی اعزاز ہے کہ اِس میں ایسابھی ہوا ہے کہ ہماری حکومت نے شدت پسندوں سے نیک نیتی کی بنیاد پر مذاکرات شروع کئے مگر شدت پسندوں نے اِس کے خلوص کے پھول کو پیروں تلے مسل کر رکھ دیایہ بھی موجودہ صدی کا ہی کمال ہے کہ حکومت نے طاقت رکھنے کے باوجود بھی بدنامِ زمانہ شدت پسندوں سے مذاکرات شروع کئے مگر شدت پسندوں نے حکومتی پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا اور اپنی ہی دہشت گردانہ روش پر قائم رہے۔

Government Of Pakistan

Government Of Pakistan

یوں آج جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حکومت نے مذاکراتی عمل کو روک دیا ہے اور شدت پسندوں کے خلاف فضائی حملے شروع کر دیئے ہیں یقینا اِس کے ذمہ دار بھی یہی شدت پسند عناصر ہیں جنہوں نے اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے سامنے حکومتی مذاکراتی عمل کو مذاق جانا اور غیر سنجیدگی کا مظاہر ہ کرتے رہے، مگر شاید حکومت اِس سارے عمل میں دوسو فیصد سنجیدہ تھی جِسے سمجھے بغیر شدت پسند اپنی ضد پر ہی آڑے رہے شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر حکومتی فضائی حملوں سے متعلق اطلاعات یہ ہیںکہ پہلی حکومتی فضائی کارروائی میں حکومت کو بڑی کامیابیاں ملی ہیں، اور حکومت نے فضائی حملے میں کئی نامی گرامی ماسٹر مائنڈ شدت پسندوں کی کمین گاہوں کو نیست و نابود کر دیا ہے اِس پر حکومت کایہ بھی کہنا ہے کہ اگر پھر بھی شدت پسندوں نے اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں جاری رکھیں تو مزید شدت کے ساتھ کارروائیاں کی جائیں گیں۔

آج سب کچھ ممکن ہو سکتا ہے طاقتور اگر سر خم کرے تو بھی یہ اِس صدی کا انوکھا واقعہ ہو گا اور اِسی طرح اگر کوئی کم ظرف دہشت گردانہ کارروائیوں سے اِنسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے تو بھی یہ اِس صدی کا منفی اور انتہائی عبرتناک اور قابلِ افسوس رخ ہو گا اور اگر دہشت گردوں کے خلاف حکومتی مشینری حرکت میں آجائے تو یہ بھی موجودہ صدی کا بڑا کارنامہ سمجھا جائے گاگو کہ اِس صدی میں جا بجا جتنے بھی اَنہونے ہو جائیں ہونے دو اور حقیقت کی آنکھ سے تسلیم کرو، کیونکہ موجودہ صدی میں اِنسان ہی اِنسان کے خون کا پیاسہ ہے اور آج ہم ایسا ہوتا اپنی کھلی آنکھوں سے بھی دیکھ رہے ہیں، اِس پر کچھ کا مذمت کرنا ہے تو کچھ اپنے عزائم کی تکمیل کے خاطر معصوم اِنسانوں کا گلا کاٹنا اپنے نقطہء نظر کی تسکین سمجھ رہے ہیں۔

آج درحقیقت اکیسویں صدی کی خیر اور شر کی اِس جنگ میں یہ پتہ لگانا بہت مشکل ہو گیا ہے کہ اچھائی کے راستے پر کون چل رہا ہے اور اِن دونوں کے درمیان سے اچھائی کو کہاں سے ڈھونڈ نکالا جائے؟ تاکہ مُلک میں بھائی چار گی اور محبت و خلوص اور ملی یکجہتی و اخوت و مساوات کی ایک نہ ختم ہونے والی فضا قائم ہو جائے یعنی مُلک میں ایسا دیر پا امن دیکھنے کو ملے کہ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے دِکھائی دیں۔ موجودہ حالات میں ہم اپنے مُلک کے لئے یہ دُعا کر رہے مگر درحقیقت بیجنگ میں پیش آئے واقعے نے ہمارے معاشرے کے اُن اِنسانوں کے لئے بڑاسبق چھوڑا ہے آج جو معصوم اِنسانوں کے خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں اور جو اقتدار میں آجانے کے بعد اپنے کاروباری مائنڈ کی وجہ سے لوگوں کو بے روزگار کرنے کے حربے استعمال کر رہے ہیں یعنی شیر، شیر میں بھی فرق ہے ایک وہ حقیقی شیر تھے جو آدمخور ہو کر بھی مجبور اِنسان پر ترس کھا گئے اور ایک ہمارا یہ کاغذی شیر ہے جو وہ سب کچھ کر رہا ہے وہ اِسے نہیں کرنا چاہئے تھا؟

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر: محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com