مسلم پنش ڈے اور انسانی حقوق کے علمبردار

Punish a Muslim Day

Punish a Muslim Day

تحریر : عنایت کابلگرامی
گزشتہ روز گوگل پر سرچنگ کے دوران ایک انگریزی رپورٹ پر نظر پڑی جس کو دیکھ کر میں کچھ دیر کے لئے ساکن ہو گیا، ہونا بھی تھا کیوں کہ وہ خبر ہی ایسی تھی ،انگلش میں کچھ یوں لکھا ہوا تھا، (panish a muslim day 3rd april 2018) یعنی جس طرح مائوں کا عالمی دن ،( مدر ڈے) مزدوروں کا عالمی دن (لیبر ڈے) یا خواتین کا دن ( ویمن ڈے) منایا جاتا ہیں ، اسی طرح برطانیہ میں مسلمانوں کو سزا دینے کا دن ( پنش اے مسلم ڈے) تین اپریل کو منایا جائیگا۔

برطانیہ کے مختلف شہروں میں میں نامعلوم آفراد نے کئی گھروں ،دفاتروں اور دوکانوں میں ایک خط پھینکا ، جس خط میں عیسائیوں سے اپیل کی گئی ہیں کہ وہ تین اپریل کو مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کا حصہ بنیں۔ خط میں ہر قسم کے نفرت انگیز جرائم کی ا رتکاب نسل پرستی اور تعصب و نفرت پر پوائنٹس دینے کا اعلان کیا گیاہے ۔ خط کا اردوں ترجمہ جو کچھ یوں ہے۔ 3 اپریل کو مسلمانوں کو سزا دینے کا دن منانے کا اعلان۔”مسلمان کو گالی دینے پر 10 پوائنٹس، مسلمان خاتون پر ہاتھ اٹھانے یا نقاب نوچنے پر 25 پوائنٹس، چہرے پر تیزاب پھینکنے پر 50 پوائنٹس ،کسی مسلمان کو مارنا یا شدید زخمی کرنے کے 100 یا 500 پوائنٹس، مسجد جلانے یا بم پھینکنے پر 1000 پوائنٹس۔۔ان سے بڑھ کر تین اپریل والے دن خانہ کعبہ کو (نعوذباللہ) نقصان پہنچانے پر 2500 پوائنٹس دیئے جائینگے۔ کون حاصل کرسکتا ہے یہ پوائنٹس؟؟؟” آخر میں رابطہ کرنے کے لئے،مزید معلومات کرنے کے لئے ایڈریس اور بھیجنے والے ادارے کا نام بھی د رج کیا گیا ہے ۔وہ ایڈرس یہ ہے۔HM Courts & Tribunals Service) GOV.UK 102 patty france landan

مسلم اے پنش ڈے کے لیٹرز کو دیکھ کر برطانیہ میں موجود مسلم کمیونٹی میں شدید خوف و ہراس پھیلا ہوا ہیں۔ برطانیہ میں مقیم بہت سے مسلمانوں نے مختلف تھانوں میں رپورٹ بھی درج کرائی مگر کارروائی کرنے میں وہاں کی پولیس کوئی خاص دلچسپی نہیں لے رہی ہیں۔ ایک طرف مسلمانوں میں خوف و ہراس بڑھتا جا رہاہیں ، تو دوسری طرف انسانی حقوق کے علمبردا ر چاہیئے و مغربی ہو یا مشرقی سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

خدا نخواستہ اگر اس قسم کا کوئی پیغام کسی اسلامی ملک میں یا کسی مسلمان انتہا پسند گروپ کی جانب سے ہوتا تو کیا حقوق انسانیت کے علمبردار یوں ہی خاموش رہتے ؟ کیا مغربی ممالک کے لوگ یوں ہی لب سئے تماشہ دیکھ رہے ہوتھے؟۔

خون مسلم کے ارزانی کے انعامی کوپن کوئی پہلی مرتبہ سامنے نہیں آیا، اس سے قبل بھی اسی طرح ہوتا رہا ہے، برما میں مسلمان مردوں کو ایک درخت کے ساتھ باندھ کر نشانہ بازی کی مشقیں کی جاتی ہیں ،کہ آنکھ پر گولی مارنے پر یہ انعام ، ناکھ پر فلاح انعام (اللہ اکبر) ۔ مگر اب کہ با ر یہ کھل کر سامنے آیئے ہیں۔ ہم لوگ خبروں ، نیٹ اور اخبارات میں روزانہ یہ دیکھتے ہیں کہ آج جرمنی میں مسجد کو شہید کیا گیا ، آج فرانس میںایک مسلمان لڑکی کو چاقوں سے مار کر شہید کردیا گیا ”وجہ اسکارف” کبھی آسٹریا میں مسلمان خواتین پر حجاب کی پابندی ، تو کبھی کسی ملک میں نماز و آذان پر پابندی ، حتیٰ کہ مسلمانوں پر یورپین زمین تنگ کرنے کیلئے تمام حربے استعمال کئے جارہے ہیں،موجودہ مسلم پنش ڈے بھی اسی کا تسلسل لگ رہا ہے۔

مگر افسوس صد افسوس کہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں موجود نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار ایسے واقعات پر خاموش تھے اور ہیں اگر پاکستان یا کسی بھی اسلامی ملک میں اس قسم کی کوئی واقعہ ہوجائے یا کسی تنظیم کی جانب سے ایسا کوئی خط جاری ہوجائے ۔ مثلاًحال ہی میں پاکستان کے علاقے مردان کے حجام برادری کی نمائندہ تنظیم نے داڑھی کی ڈیزائن پر پابندی عائد کی ہیں،جس پر نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ،مگرمسلم اے پنش ڈے والے معاملے میں ان کی خاموشی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ یہ انسانیت کے نہیں صرف و صرف مغربیت کے ہمنواں ہیں ۔اس کے ثبوت کے طور پر انگلش فٹبالر رونالڈو کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔

کچھ روز قبل یورپین فٹبال اسٹار کھلاڑی رونالڈو نے پیپسی کمپنی کی کروڑوں روپے کے اشتہار میں کام کرنے سے انکار کیا تھا ، وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ میں ایسی کمپنی کے تشہیری مہم کا حصہ ہر گز نہیں بن سکتا جو کمپنی اسرائیلی فوج کو امداد فراہم کرتی ہو بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کے لئے ، مزید بھی کچھ باتیں کہی۔ لیکن اگر یہیں بات پاکستان کا کوئی مولوی کہیں یا کوئی دینی رجحان رکھنے والا شخص کہیں، تو یہیں موم بتی مافیا جو حقوق انسانیت کے علمبردار بنے ہویئے ہیں ، اس مولوی یا مذہبی نظریہ رکھنے والے شخص کو تنگ نظر کہیں گے یا انتہاپسند کہیں گے۔ مگر ان میں سے کسی نے بھی رونالڈو کی بیان پررد عمل ظاہر نہیں کیا ”کیونکہ رونالڈو ایک یورپین و مغربی شخص ہے”۔ اللہ تعالیٰ ہی ایسی لوگوں کو ہدایت نصیب کریں(آمین)

Inayat ulhaq Kabalgraami

Inayat ulhaq Kabalgraami

تحریر : عنایت کابلگرامی