تحریر : پروفیسر رفعت مظہر بِلاشبہ جس کے دِل میں رَتی بھر بھی ایمان ہے ،اُس کا دِل حضورِ اکرمۖ کی محبت سے سرشاراور اُن کی ذاتِ اقدس پر اپنی جان تک وار دینے کو تیار رہتا ہے۔ 12 ربیع الاوّل کو ہم آقاۖ کا جشنِ ولادت پورے تزک واحتشام سے مناتے ہیں۔ اِس دِن پورا ملک بقعۂ نور بنا ہوتا ہے ۔مساجد ،گھروںاور گلیوں میں چراغاں ہوتا ہے ،میلاد کی محافل سجتی ہیں ،جلسے جلوس اور ریلیاں ترتیب دی جاتی ہیں اور فضائیں درودوسلام کی صداؤں سے معطر ہونے لگتی ہیں۔ جب ہم اِن روح پرور نظاروں میں مستغرق ہوتے ہیں ،تب بھی ہمیں ضمیر کی خلش ہر گز تنگ نہیں کرتی کہ اصل محبت چراغاں اور گھروں کو سجانے میں نہیں ،حضورِ اکرم ۖ کے تتبع میں ہے، آپ ۖ کے نقشِ قدم پر چلنے کی سعی میں ہے۔ لیکن ہماری حالت تو بقول اقبال یہ ہے کہ
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے مَن اپنا پرانا پاپی ہے ، برسوں میں نمازی بن نہ سکا فرقوں اور گروہوں میں بٹی ہوئی یہ قوم اپنی عقیدتوں کا اظہار تو ضرور کرتی ہے لیکن عمل مفقود۔ اِسی لیے اقبال نے کہا تھا یوں تو مرزا بھی ہو ، سیّد بھی ہو ، افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟
لاریب ہم مسلمان ہیںلیکن بریلوی ،دیوبندی، اہلِ حدیث ،شیعہ، فاطمی، آغاخانی اور پتہ نہیں کِس کس روپ میں۔ ہر گروہ دوسرے گروہ کو کافر و زندیق کہنے میں ذرا جھجک محسوس نہیں کرتا کیونکہ اِنہوں نے دین کو ٹھیکے پہ لے رکھا ہے اورصرف اُنہی کی زبانیں سچ اُگلتی ہیںلیکن ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور قوم حیران وپریشان کہ سچّا کون اور جھوٹا کون۔ ہم مسلمان ہیں ، اِسی لیے دوسرے مسلمان کا گلا کاٹنا ہمارا فرضِ عین ٹھہرا۔ ہم دینِ محمدیۖ کے ٹھیکیدار ہیں اِسی لیے شیعہ کافر ،سُنی کافر جیسے نعروں سے فضائیں مسموم کرتے رہتے ہیں۔ہم مسلمان ہیں ،اِسی لیے اپنے ہاتھ ،زبان اور قلم سے دوسروں کے دَرپئے آزار رہتے ہیں۔
دینِ مبیں تو دوسروں کے لیے آسانیاں اور سہولتیں پیدا کرنے کا حکم دیتا ہے اور آقاۖ نے تو اُس عورت کی مزاج پُرسی بھی کی جو آپۖ پر ہر روز کوڑا پھینکتی تھی۔ طائف کے شَرپسندوں نے آپۖ پر پتھروں کی بارش کر دی، آپۖ کا پورا وجود ِمبارک زخموں سے چُور چُور ہوگیا، جوتے خون سے بھر گئے۔ آپۖ نے ایک باغ میں پناہ لی ،فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اگر حکم ہو تو طائف کا پہاڑ بستی پر گِرا کر اِن شَرپسندوں کو نابود کر دوں؟۔ تب عالمین کے رحمت بنا کر بھیجے گئے نبیۖ نے فرمایا ” نہیں ! اگر یہ اسلام قبول نہیں بھی کرتے تو مجھے یقین ہے کہ اِن کی آنے والی نسلیں مسلمان ہو جائیںگی ” (مفہوم)۔ لیکن ۔۔۔۔۔ لیکن فیض آباد (راولپنڈی) میں دھرنے پر بیٹھے یہ لوگ کون ہیں جو دَم تو آقاۖ کی محبت کا بھرتے ہیں لیکن لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے اُن کے دَرپئے آزار ہیں؟۔ یہ کون لوگ ہیں جن کا سربراہ کہتا ہے ”الحمدُ للہ! خوشی کی بات ہے کہ بچّے اپنے سکول نہیں جا سکتے ،مریض ہسپتالوں میں پہنچنے سے پہلے ہی دَم توڑ رہے ہیں، مزدور تلاشِ رزق میں نہیں نکل سکتے اور کاروبارِ زندگی ٹھَپ ہو کر رہ گیاہے”۔ جب اُس سے سوال کیا گیا کہ ایسا کیوں ؟۔ اُس نے جواب دیا ”نبی ۖ کی محبت سب سے پہلے، باقی سب بعد میں”۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا آقاۖ کی تعلیمات یہی ہیں ؟اور کیا دینِ مبیں اِس کی اجازت دیتا ہے؟۔ حبّ ِ رسول ۖ کا تقاضہ تو یہ ہے کہ دوسروں کی دستگیری کی جائے ،اُن کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں اور اُن کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کی جائے ،یہ ہرگز نہیں کہ حبّ ِ نبیۖ کی آڑ میں دوسروں کے دکھوں میں اضافے کا سبب بنا جائے۔ دراصل دھرنے میں بیٹھے لوگوں کا سربراہ کسی سانحے کے انتظار میں ہے ۔ اُسے تو اِس بات کی بھی خوشی ہے کہ رینجرز ،ایف سی اور پولیس کے جوان مجمعے کو گھیرے ہوئے ہیں اور کسی وقت بھی ایکشن ہو سکتا ہے۔ اُسے تو لال مسجد جیسے کسی سانحے کی تلاش ہے کیونکہ اُسے اپنی سیاست چمکانے کے لیے لاشیں درکار ہیں۔ اگر یہ دیکھنا ہے کہ وہ اخلاقیات کے کِس درجے پر فائز ہے تو اُس کی وہ ”ویڈیو” دیکھ لیں جو آجکل سوشل میڈیا پر وائرل ہے ، جس میں وہ حکمرانوں کو غلیظ ترین گالیاں بَک رہا ہے اور اُس کے حواری سُبحان اللہ ، سبحان اللہ کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔
حکومتی رِٹ اِتنی بھی کمزور نہیں کہ دھرنے پر بیٹھے لگ بھگ دو ہزار لوگوں سے فیض آباد کا قبضہ نہ چھڑوا سکے، پولیس ،ایف سی اور رینجرز کے پانچ ہزار جوان وہاں تعینات کیے جا چکے ہیں جو آسانی سے فیض آباد خالی کروا سکتے ہیں ۔اِس کے باوجود حکومت نہیں چاہتی کہ ماڈل ٹاؤن لاہور جیسا کوئی سانحہ ظہورپذیر ہو۔ آج سیاسی جماعتوں کے علاوہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی اِس دھرنے کے خاتمے کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن حکومت افہام وتفہیم اور مذاکرات کے ذریعے ہی اِس دھرنے کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے اور بہتر بھی یہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر تشدد کے ذریعے دھرنے والوں کو اُٹھانے کی کوشش کی گئی تو یہی الیکٹرانک میڈیا جو حکومتی رِٹ پر سوال اُٹھا رہا ہے ،اُس کے کیمرے ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کرنے میں مصروف ہو جائیں گے۔ تب نہ تو میڈیا اور نہ ہی اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں یہ سوچیں گی کہ حکومت نے ہر راہ اپنا لی لیکن دھرنے والے ٹَس سے مَس نہیں ہوئے۔ اِسی لیے وزیرِداخلہ احسن اقبال نے کہا ” ایکشن آخری آپشن ہوگا”۔
جمہوری ممالک میں آزادیٔ اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہوتی ۔ بَدقسمتی سے ہمارے ہاں اِس آزادی کو مادرپِدر آزادی سمجھ لیا گیا ہے جس کے بانی تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خاں ہیںجنہوں نے ڈی چوک اسلام آباد پر 126 روزہ دھرنا دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آزادی کا مطلب مادرپِدر آزادی ہے۔ کنٹینر پر ٹہلتے عمران خاں نے اُن دنوں انارکی پھیلانے کی بھرپور کوشش کی ۔ اُنہوں نے سول نافرمانی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو ٹیکس اوریوٹیلٹی بِلز دینے بند کر دیئے جائیںاور پیسہ ہُنڈی کے ذریعے بھیجا جائے۔ دھرنے کے دَوران ہی پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ توڑے گئے اور اُس کے لان پر قبضہ کیا گیا۔
ایوانِ وزیرِاعظم پر حملہ ،پی ٹی وی پر قبضہ اور تھانے پر حملہ کرکے اپنے حواریوں کو زبردستی چھڑوانے جیسے ”کارنامے” بھی اِسی دھرنے کے دَوران سَرانجام پائے۔ اِس سب کچھ کے باوجود خاں صاحب آج بھی دندناتے پھرتے ہیں اور کِس کی مجال ہے جو اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ یہی وہ ”شہ” ہے جو معاشرے کی نَس نَس میں ناسور کی طرح سما چکی ہے اور ہر کوئی یہی سوچتا ہے کہ جب عمران خاں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا تو ہمارا کیا بگاڑ لے گا ۔
جب ہم اِن حقائق سے پردہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو عمران خاں کے چاہنے والوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے لیکن ہم نے بھی طے کر رکھا ہے کہ وطنِ عزیز پر گزشتہ چار سالوں میں گزری حکایتِ خونچکاں دہراتے رہیںگے کہ یہی دھرتی ماں کی محبت کا تقاضہ ہے۔ ہمیں اپنے کالموں پر گالیاں تو بہت پڑتی ہیں لیکن آج تک کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ہمارے لکھے کو جھٹلا سکے۔