نئی دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی ہائی کورٹ نے دہلی میں مسلم کش فسادات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے حکمراں جماعت بی جے پی کے 3 رہنماؤں کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کیخلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھارت آمد کے موقع پر دہلی میں مسلم آبادیوں اور مسجد پر مشتعل ہندوؤں کے حملے اور 20 سے زائد مسلمانوں کے جاں بحق ہونے پر ہائی کورٹ میں امن و امان کے حوالے سے سماعت ہوئی۔
یہ خبر پڑھیں : دہلی مسلم کش فسادات میں 20 افراد جاں بحق؛ کئی علاقوں میں کرفیو
جسٹس ایس مورالی دھر اور جسٹس تلوانت سنگھ نے پولیس اہلکاروں پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 1984 جیسے فسادات دہرانے کی اجازت نہیں دیں گے، ججز نے پوچھا کہ کیا آپ نے بی جے پی کے مقامی رہنماؤں کی نفرت آمیز تقاریر سنیں؟ جس پر پولیس کمشنر نے جواب دیا کہ میں نے کپل مشرا کی تقریر نہیں سنی۔
اس موقع پر ججز کی ہدایت پر عدالتی عملے نے پولیس افسران کو کپل مشرا کی مسلمانوں کیخلاف ہندوؤں کے جذبات کو اکسانے کے لیے کی گئی تقریر دکھائی۔ جس میں تینوں رہنما نے مسلمانوں کو غدار اور وطن دشمن قرار دیتے ہوئے ان کی آبادیوں اور عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کی دھمکی دی تھی۔
ہائی کورٹ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کی تقاریر سنانے کے بعد پولیس کمشنر کو حکم دیا کہ اب ان رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے لیے آپ کے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہتا اس لیے فوری طور پر کپل مشرا سمیت تینوں رہنماؤں کو حراست میں لیکر مسلمانوں پر حملے میں ملوث افراد تک پہنچا جائے۔
ادھر کانگریس رہنما سونیا گاندھی نے دہلی میں مسلم کش فسادات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے معصوم شہریوں کی ہلاکت اور مسجد پر حملے کا ذمہ دار مرکزی حکومت کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ امیت شاہ کو اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیئے۔
دوسری جانب دہلی کے جلنے کے موقع پر چین کی بانسری بجانے والے وزیر اعظم مودی کو تین روز بعد دہلی کا خیال آہی گیا، ٹویٹر پر اپنے پیغام میں شہریوں سے پُر امن رہنے اور بھائی چارگی کے فروغ کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ایجنسیاں امن کی بحالی کیلیے ہمہ وقت گراؤنڈ پر موجود ہیں۔
قبل ازیں دہلی کے وزیر اعلیٰ نے اپنے ایک بیان میں مسلم کش فسادات پر قابو پانے میں ناکامی پر پولیس کی کارکردگی پر سوال اُٹھاتے ہوئے دارالحکومت میں فوج کو طلب کرنے کا مطالبہ کردیا تاہم مرکزی حکومت کی جانب سے تاحال ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے۔