مسلمان دنیا کے جس کونے میں بھی رہتے ہوں۔ وہ ایک دوسرے کے جسموں کا حصہ ہیں۔ یہ انتہائی خوبصورت رشتہ ہے یہی رشتہ جس نے کلمہ پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والوں کو الگ الگ دو صفوں میں کھڑا کر دیا۔ یہی رشتہ ہے جس کے بل بوتے پر عالم دنیا میں اسلام کا جھنڈا لہرایا۔ آج ہم جہاں سانس لے رہے ہیں، جس دھرتی پر رہتے ہیں اسے پاکستان کہا جاتا ہے۔ اس سر زمین پر اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ یعنی ہم مسلم معاشرے میں رہتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو مسلم کہلواتے ہیں۔ کیا ہوا ہمارے کام مسلمانوں جیسے نہیں ہیں۔ ہماری رسم و رواج مسلم نہیں ہیں۔ ہمارا کھانا پینا، سونا جاگنا، چلنا پھرنا مسلمانوں جیسا نہیں۔ الحمداللہ پھر بھی ہم مسلمان ہیں۔ آج سے چودہ سو سال پہلے مسلمان اتنا فاسٹ نہیں تھا۔ اس میں صبر و شکر کے جراثیم بہت زیا دہ تھے۔ ایک دوسرے کے کام آنے والے۔ ایک دوسرے کی عزتوں کے محافظ، ایک دوسرے کے دکھ وسکھ میں شریک ہونے والے۔ مگر افسوس، صدا افسوس جب سے میڈیا نے جنم لیا ہے۔ مسلمان بگڑتے چلے گئے ہیں۔ ان کا اوڑھنا، بچھونا، کھانا پینا، یہودیت جیسا ہو گیا ہے۔ اگر مسلمانوں کے گھروں میں انڈیا ناچتا ہے تو میڈیا کے مرہون منت ہے۔ عریانی، فحاشی کو عام کرنے میں میڈیا نے ہی کردار ادا کیا ہے۔ میڈیا نہ ہوتا تو آج کا مسلمان جدید کیسے ہوتا۔؟
ہاں ہاں مسلمانوں نے بہت ترقی کر لی ہے۔ دوسرے کی رسموں کو اپنانے میں، دوسرے جیسا بننے میں، ان جیسا رہن سہن میں۔یہ ترقی ہی تو ہے کہ ہم نے اونچے اونچے محل بنا لئے ہیں جس میں شب وروز ناچ گانا، شراب کی محفلیں چلتی رہتی ہیں۔ لوٹ مار، راہزنی، رشوت کے جدید ترین طریقے ایجاد کر لیے ہیں۔ اگر میڈیا نہ ہوتاتو یہ کیسے ممکن ہوتا۔؟ آپ اور ہم چلتے پھرتے کھانا کھاتے ہیں، یہی نہیں کھڑے کھڑے پانی پیتے ہیں، یہ طریقے کہاں سے دریافت ہوئے۔؟ کیا ہوا ہم کھڑے ہوکر نماز نہیں پڑھ سکتے۔ ارے بھائی بزنس میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ نماز کا وقت نہیں ملتا، کاروبار وسیع ہوگئے دل تنگ ہوتے گئے۔ دل میں دولت نے جگہ بنا لی اور محبت رسول ۖ جاتی رہی۔ پھر بھی ہم شان سے چلتے ہیں۔ روز جنازے پڑھتے ہیں، روز جنازے کندھوں پر اٹھاٹے ہیں۔مگر عبرت نہیں پکڑتے۔ الیکٹرک میڈیا، پرنٹ میڈیا جب سے آزاد ہوئی ہے، مسلمان اسلامی تہذیب و تمدن، رسومات سے آزاد ہوگیا ہے۔ قرآن مجید حصول برکت کے لئے گھروں میں رکھ دیا گیا ہے۔ مدرسوں میں جہاں بچوں کو قرآن کی تعلیم دی جاتی تھی آج وہاں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کیا جاتا ہے۔
Media
فحاشی، زناکاری عام ہوتی گئی۔ یہ سب مسلمان نے کہاں سے سیکھا؟ میڈیا سے ہاں ہاں میڈیا سے، اگر انٹرنیٹ، کیبل، ٹی وی، پر ایسے پرگرام نہ ہوتے، تو مسلم معاشرہ کیوں کر بگڑتا۔مغرب نے مسلمانوں کو شکست دینے کے لئے یہی طریقہ آزمایا۔ جس میںآج سو فیصد کامیاب نظر آتا ہے۔ انگریز نے مسلمانوں کو شکست دینے کے لئے غورو فکر کیا اور مسلمانوں کی کمزوریاں ڈھونڈ لی۔ ہاں آج اس نے اپنی عورتوں کو برہنہ کر دیا عریانی، فحاشی کے جراثیم مسلم معاشر ے میں چھوڑ دیئے۔ آج ہماری عورتیں برائے نام لباس زیب تن کرتی ہیں۔ ڈوپٹہ سر سے سراتا سراتا گلے کی زینت بن گیا ہے۔ یہ سب کہاں سے آیا، کس نے سکھایا؟ میڈیا نے۔
آج دولت پر مرمٹنے والے صحافی اپنے منصب کو بھول گئے ہیں۔روز مختلف چینلز پر چیخ چیخ کر ایک دوسرے کی بڑائیاں پیش کرتے ہیں۔ اخبارات اٹھا کر دیکھو تو ایسی ایسی خبریں نظروں سے گزریں گی کہ روح تک کانپ اٹھے۔ فلاں کی بیوی اپنے عاشق کے ساتھ بھاگ گئی فلاں شہر میں اوباشوں نے طالبہ کو اغوا کر کے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ غیرت کے نام پر بھائی نے بہن کو قتل کر دیا۔ ایسی خبریں شائع کرنے سے برائیاں بڑھ گئیں ہیں نہ کہ کم ہوئی ہیں۔ ایسی خبریں شائع کرنے کی بجائے، معاشرے سے برائیاں ختم کی جاتیں۔ ایسی برائیوں کا سدباب کیا جاتا۔مگر افسوس! آج کے مسلمان کے گھر میں تین تین ٹی وی، کبیل، انٹرنیٹ کے کنکشن دسیتاب ہیں۔ مسجد میں اذان ہو رہی ہے، گھروں میں گانے بج رہے ہیں۔ نماز کا ہوش نہیں، قرآن، کلمہ آتا نہیں اور انگلش میں فر فر بولتے ہیں۔ میڈیا نے مسلم معاشرے کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔
میڈیا کے کردار کو جتنا سہرا جائے کم ہے۔ آج ہمارے بچے وقت سے پہلے جوان ہو گئے ہیں۔ اپنے فیصلے خود کرنے لگے ہیں۔ ماں، باپ کو مم، مما، ڈھڈی کہنے لگے ہیں۔ ہم بھی خوش ہیں ہمارے بچے بھی خوش ہیں۔(اپنے ہی گراتے ہیں نشمن پر بجلیاں)کے مصداق، ہماری ہی میڈیا نے دنیا بھر میں ہمیں بدنا م کر دیا ہے۔ جس کی مثال اسلام آباد کا واقعہ ہے۔ ایک شخص نے پورے اسلام آباد کو یرغمار بنائے رکھا۔ وہ اسلام آباد جو پاکستان کا درالحکومت ہے۔ جہاں پاکستان کے بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں۔ ہماری میڈیا نے اسے براہ راست کروریج دی پوری دنیا میں دکھایا گیا۔ سوچ طلب بات ہے ایسا کرنا کی کیا ضرورت تھی۔
ہماری میڈیا کو مثبت کردار ادا کرنا چاہیے نہ کہ منفی حربے استعمال کریں۔ دولت ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ عزت و قار بھی انسان کی، ملک کی شان ہوتی ہے۔ امید ہے ہماری میڈیا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کو صیحح سمٹ راغب کرے گی۔ ٹیلی ویثرن پر ایسے پروگرام چلانے چاہے جس سے معاشرے درست سمت چل سکے نہ کہ دھماکہ خیز خبریں، ایک خبر کو بار بار پیش کر کے عوام کو خوف زدہ کیا جائے۔ اللہ تعالی ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا کرے آمین۔