مسلم معاشرہ اور جدید میڈیا کا کردار

Turkey

Turkey

مسلم معاشرے سے مراد اگر موجودہ مسلم معاشرہ ہے تو یہ مسلم معاشرے کی بگڑی ہوئی شکل ہے مسلم معاشرے کو ہمارے آقائوں نے توڑ پھوڑ دیا ہے اس کی مثال کچھ واقعات سے ہم اخذ کر سکتے ہیں جب صلیبیوں نے ترکی کو شکت دی خلافت کو ختم کیا مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے راجوڑوں (ملکوں) میں با نٹ دیا تو ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ ہم نے مسلم معاشرے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ اتاترک نے ترکی میں اسلام کی ساری کی ساری معاشرت کو ریاستی جبر سے ختم کیا اس کی جگہ مغرب کی شیطانی معاشرت کورائج کر دیا جس کو آج تک سنبھلنے کا موقعہ نہیں مل سکا۔

کچھ مدت پہلے ایسی ہی کوشش کا ذکر بھارت میں کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی نے کیا اور کہا تھا کہ مسلمانوں کی معاشرت (تہذیب) کو ہم نے ختم کر دیا اسی طرح یہودیوں کے پروٹکول میں بھی درج ہے کہ فلاں وقت تک ہم نے میڈیا پر کنٹرول حاصل کرنا جو انہوں نے حاصل کر لیا جس پر عمل کرتے ہوئے اس وقت دنیا کی تمام بڑی بڑی خبر رساں ایجنسیاں اور الیکٹرونک میڈیا پر یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں دنیا اور خصوصاً مسلم معاشرے میں وہی خبر آتی ہے جو وہ چھان بین کر اپنے مطلب کی بنا کر نشر کرتے یا پیش کرتے ہیں۔

دوسری طرف مسلم دنیا میں میڈیا پر کوئی خاس پیش رفت نہیں کی گئی جس وجہ سے مغربی میڈیا جس رخ پر مسلم معاشرہ کو چاہتا ہے ہانک کر لے جاتا ہے بلکہ مسلم حکومتوں میں ڈالر کی چمک دکھا کر میڈیا کے لوگوں کو خریدا جا تا جس کی خبریں ہمیں پاکستان میں بھی اکثر ملتی رہتی ہیں۔
صحیح مسلم معاشرہ ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں مدینے میں قائم ہوا تھا جسے دنیا کی شیطانی قواتیں ہر دور میں ختم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر وہ اسے با لکل ختم نہیں کر پائے صرف اس میں بگاڑ پیدا کر سکے ہیں۔

میڈیا نام ہے معلومات کی ابلاغ کا، الیکٹرونک، پرنٹ یا زبانی ہو۔ میڈیا کے ذریعے معاشرے پر اثر انداز ہونا، معاشرے کی نشونما پر میڈیا کا اثر ہر زمانے میں مانا گیا ہے اسلام سے پہلے بادشاہوں کے دور میں یہ کام بادشاہ کے قصہ گو زبانی عوام تک بادشاہ کی خبریں پہنچاتے تھے جس میں اللہ سے ڈرنے کے بجائے بادشاہ سے ڈراتے تھے طریقہ یہ رائج تھا کہ” قصہ گو خبر کو اس طرح عوام تک پہنچاتے تھے کہ ایک تھا بادشاہ تیرا میرا اللہ بادشاہ. . .پھر آگے خبر شروع ہو جاتی تھی۔

Prophet Muhammad (PBUH)

Prophet Muhammad (PBUH)

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں دنیا کے سارے غلط چلن ختم کیے وہاں میڈیا کی سمت بھی درست کی خبر کو عام کرنے کے لیے مقدس جگہ مسجد تھی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی کے ممبر پر بیٹھ کر (خبر) احکامات دیا کرتے تھے جو معاشرے میں اللہ کے حکم کا درجہ رکھتی تھی اُس پر ہر مسلمان کا عمل فرض قرار دیا گیا تھا اسی مسجد کے میڈیا کے ذریعے مسلم معاشرہ قائم ہوا تھا عام مسلمان کسی بھی خبر کو پہلے تحقیق کر کے آگے بیان کیا کرتا تھا کسی کے جھوٹے ہونے کے لیے یہ کافی تھا کہ اِدھر سے بات سنی اُدھر بغیر تحقیق کے آگے پھیلا دی یہی مسلم معاشرہ اسی دنیا میں خلفائے راشدین کے دور تک قائم تھا مساجد میں خطیب اللہ کی کبرایائی جو سب سے بڑی خبر ہے کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرے کی نشو ونماء اور اخلاق سدھارنے کی ذمہ داری بھی ادا کرتے تھے سارا مسلم معاشرہ، ایک مسلم قومیت میں زعم ہو گیا تھا اسی مسلم معاشرے پر شاعر اسلام علامہ اقبال نے کہا تھا۔

”اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر . . . خاص ہے ترکیب میں ہے قومِ رسولِ عاشمیۖ”

پھر اس مسلم معاشرے میں تبدیلی آنا شروع ہوئی خلافت عام مسلمانوں کی رائے کے بجائے اپنے خاندان میں قائم ہونے لگی خزانہ حکمرانوں کے ذاتی ملکیت میں چلا گیا۔ وفاداری کا معیار اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے حکمرانوں کے ساتھ منسلک ہو گیا فرد کی آزادی کم سے کم ہوتی گئی مسجد جو اس وقت کا سب سے بڑا میڈیا کا ذریعہ تھی حکمرانوں کے کنٹرول میں چلا گیا اب وہی بات صحیح مانی گئی جو حکمرانوں نے کہی جس نے حق و سچ بیان کرنے کی کوشش کی اس کے گلے کاٹے گئے اور پس ِزنداں ڈالے گئے۔

پھر دنیا میں فاصلے کم ہونا شروع ہوئے ابلاغ میں آسانی پیدا ہوئی سفری سہولتیں جانوروں کے بجائے مشین کے ذریعے حاصل ہو گئیں موٹر کار اور ہوائی جہاز نے آسانیاں پیدا کر دیں ساتھ ہی ساتھ ذارئع ابلاغ نے ترقی کی چھاپا خانے وجود میں آئے اس کے بعد ریڈیو ایجاد ہوا فلم جس میں انسان کی شکل سامنے دیکھی جا سکتی تھی ایجاد ہوئی ٹیلیوژن ایجاد ہوا بلا آخر ایسے ذریعے ایجاد ہوئے کہ ایک شخص زمین کے ایک کونے سے اپنی بات پوری دنیا کو سنا نے کے قابل ہو گیا۔ ان آسانیوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مقتدر قوموں اورحکومتوں نے اپنے مقصد کے لیے اپنے مخالفوں کے اندر نفوذ کرنا شروع کیا جدید میڈیا سے خوف کی فضاء پیدا کی گئی جیسے افغان جہاد میں اس کے حواری ڈراتے تھے کہ روس ایک دفعہ جس ملک میں داخل ہوا واپس نہیں گیا اب یہودی کنٹرولڈ میڈیا امریکہ سے کمزور قوموں کو ڈرا رہا ہے اسی میڈیا کے ذریعے اپنی تہذیب کو بڑھا چڑھا کے پیش کر رہے ہیں۔

Valentines Day

Valentines Day

اپنے فنکاروں سے ڈراموں کے ذریعے پرانی تہذیبوں کا مذاق اُڑایا گیا اور اس کی جگہ اپنی تہذیب کو ترقی کے لیے زینے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اسی میڈیے کے زور سے کمزور قوموں کی معاشرت کو ختم کر کے اپنی معاشرت کو پروان چڑھایا جاتا ہے مختلف قسم ڈیز منائے جاتے ہیں جیسے آج ویلٹائین ڈے منایا جا رہا ہے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ذریعے بھی یہ کام کیا جا رہا ہے۔ مسلم معاشرے، خاص کر پاکستان میں ان تمام ذریعوں کو استعمال کیا جا رہا ہے مغربی شیطانی معاشرہ جس میں بے حیائی عام ہے عورت جو اسلام میں ماں بہن بیٹی کے روپ میں تقدس کی مالک ہے مغرب میں اسے شمع ِ محفل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے معاشی ضرروت کے لیے اسے نیم عریاں کر کے پیش کیا جارہا ہے سرمایہ دار کا کوئی پروڈکٹ جب تک عورت کا حسین جمیل چہرہ نہ پیش کیا جائے فروخت ہی نہیں ہوتا ہوٹلوں اور کلبوں میں عورتیں مادر زاد نیگی ہو کر بیلے ڈانس پیش کرتیں ہیں فعل قوم لوط کو عام کر دیا گیا ہے بلکہ مغرب نے اس قبیح فعل کو آئین کا حصہ بنا دیا ہے پچھلے دنوں ہمارے دوست نما دشمن امریکا کے سفارت خانے میں ہم جنسوں کا اجتماع ہوا تھا جو ہمارے مذہب اور معاشرت پر حملہ ہے۔

خاموشی سے ہمار اسکوں میں جنسی تعلیم رائج کر دی گئی ہے مغرب میں ایک ہی پانی کے عوض میں باپ بھائی ماں بیوی بہن نیم عریاں نہانے کے لباس میں نہاتے ہیں جس سے بے حیائی پھیلتی ہے جبکہ مسلم معاشرے میں عریانی نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ سوسائٹی میں پردے کا حکم ہے مغربی معاشرے میں عورت کو بھی کمائی میں لگا دیا ہے جبکہ اسلام میں گھر کی معاشی ضروریات کا ذمہ دار مرد ہے عورت پر معاشی ذمہ داری نہیں ہے ان غلط کاموں کی وجہ سے مغرب کا معاشرہ سیکسی سوسائٹی بن گیا ہے باپ کے سامنے نوجوان بیٹی کہتی ہے او کے ڈیڈ میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ جا رہی ہوں ان کے خاندانی نظام کا یہ حال ہے کہ مرد کارخانے سے شام کو کام سے واپس آتا ہے۔

بیوی کی طرف سے میز پر تحریر پڑی ہوتی ہے میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہوں کل کورٹ میں فیصلے کے لیے آجانا مغرب کے اپنے سروے کے مطابق مغربی معاشرے میں چالیس فی صد حرامی بچے پیدا ہوتے ہیں اس جدید شیطانی معاشرے کی کیا کیا خامیاں بیان کی جائیں مغربی معاشرہ مکمل تباہ ہو چکا ہے اسی معاشرے کو جدید میڈیا مسلم دنیا اور پاکستان میں خاص کر پیش کر رہا ہے حکومتیں جن کا کام عوام کی حفاظت کے ساتھ ان کی تہذیب کی بھی رکھوالی ہوتی ہے بری طرح اس جدید میڈیے کے شکنجے میں پھنسی ہوئی ہے اس کی وجہ بیرون ملکوں سے قرضوں کا حصول ہے جو قرض دیتے ہیں وہ اپنی شیطانی تہذیب بھی مسلط کرتے ہیں پاکستان میںا لیکٹرونک میڈیاگھنٹوں فلمی ایکٹرسوںکی موت ان کی عمر اور ان کی کارکردگی پر شو پیش کرتے ہیں اس کے مقابلے میں قوم کے ہیروں کو وقت نہیں دیا جاتا جو پاکستانی مسلم تہذیب کے مخالف ہیں انہیں زمین سے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا جاتا جیسے حال ہی میں ملالہ کو پوری دنیا کا لیڈر بنا دیا گیا ہے۔

مغربی ملک خاص کر امریکا میڈیا کو خریدنے کے لیے فنڈ مختص کرتے ہیں اس سے پاکستانی میڈیا بھی مستفیض ہوا ہے اسی لیے اس کو امریکی فنڈڈ میڈیا کہا جا رہا ہے دوسری طرف امن کی آشا کے نام پر بھارتی ہندوانا تہذیب کو پاکستان پر ذبردستی ٹھونسا جا رہا ہے یہ اسی جدید میڈیا کاکردار ہے جو ہمارا معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ایک ایک کر کے اسلامی قدروں کو ختم کیا جا رہا ہے اس میں پاکستانی حکومتیں بین الاقوامی قوانین کے تحت پابند ہیں اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادرے جو مغربی صلیبی ملکوں کے قبضے میں ہیں جو خود شیطانی تہذیب کے معمار ہیں وہ دنیا میں کبھی ماں کا دن، باپ کادن، بچوں کا دن، عورتوں اور ویلنٹائن ڈے منانے کے ذریعے اپنی تہذیب مسلط کر رہے ہیں یہ جدید میڈیا کا کردار ہے جس نے مسلم معاشرے خاص کر پاکستانی معاشرے کو اسلام سے دور کیا ہے۔ بے حیائی کو عام کیا ہے بانی پاکستان قائد اعظم کے اسلامی پاکستان کے ویژن کے خلاف سیکرلر زم کے پرچار کرنے کا ٹھیکا لیا ہوا ہے پر امن اسلام کو دہشت گرد بنا دیا ہے کل کے وفاداروں کو غدار بنا کر پیش کر رہا ہے یہ ہے مسلم معاشرے پر جدید میڈیا کا کردار۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میرافسر امان
mirafsaraman@gmail.com
mirafasaraman.blogspot.com