تحریر: میر افرامان، کالمسٹ کئی برس گزر گئے امت مسلمہ کی مظلوم بیٹی ابھی تک شیطانِ کبیر امریکا کی قید میں ہے۔ ہم نے بے گناہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امت مسلمہ کی مظلوم بیٹی اس لیے کہا ہے کہ جب امریکی عدالت نے اُسے ٨٦ سال کی قید سنائی تھی تو کمرہ عدالت میں موجود ایک زندہ ضمیر امریکی نے کہا تھا یہ سزا عافیہ کو نہیں سنائی گئی بل کہ اسلام کو سنائی گئی ہے۔
امریکی قانون دانوں کا ایک وفد کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے دورے پر آیا تھا۔اس وفد میں امریکا کے مشہور سول رائٹس ادارے” سول رائٹس ایکٹویسٹ این سی پی سی ایف” کے ایگزیکٹو ڈائرکٹر اسٹیفن ڈائون اور کیتھی مین لے بھی شامل ہیں۔ان حضرات نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا تھاکہ امریکا میں دہشت گردی کے ٩٤ فی صد مقدمات جھوٹے ہیں۔ان میں ہی ایک مقدمہ عافیہ کا بھی ہے۔
عافیہ موومنٹ کے تحت اس کی چھوٹی بہن ڈاکٹرفوزیہ صدیقی نے مدت سے عافیہ کی رہائی کی مہم چلا رکھی ہے۔ بین الاقوامی طور پر اگر دیکھا جائے تو ملکوں ملک دورے کیے اور عوام کو عافیہ کے ساتھ ظلم کی داستان سنائی جس پر کم و بیش دنیا کے ٦٥ ملکوں میں عافیہ کی رہائی کے لیے مظاہروں کا انتظام کیا گیا۔ امریکہ کا ایک قانون ہے کہ اگر امریکا کے صدر سے کم از کم ایک لاکھ لوگ درخواست کریں تو امریکی صدر کو قانونی حق حاصل ہے کہ کسی بھی قیدی کو رہا کر سکتا ہے اس پر عمل کرتے ہوئے عافیہ موومنت کے تحت ایک لاکھ سے کچھ زائد ای پیٹیشن امریکا کو بھیجیں گئیں مگر پھر بھی عافیہ کی رہائی ممکن نہ ہو سکی۔
American Court
پاکستان کے اندر قائم ہونے والی ہر حکومت کے ا ہلکاروں سے ملاقاتیں کیں۔سب نے کہا کہ عافیہ میری بیٹی ہے میں اس کی رہائی کے لیے کوشش کروں گا۔ پاکستان کی ساری سیاسی پارٹیوں سے رابطے کئے گئے سب نے رہائی کی لیے کوشش کرنے کے وعدے کئے۔ کئی سیاسی جماعتوں عافیہ کی رہائی کے آگاہی کی لیے ریلیاں بھی نکالیں۔انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطے کئے۔ پریس کلبوں کے سامنے عافیہ کے رہائی کے لیے مظاہروں کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی،سماجی اور سول سوسائٹی کے حضرات نے شرکت کی۔عافیہ موومنٹ کے تحت مزار قائد کے سامنے قوی جرگہ منعقد کیا گیا جس میں سوسائٹی کے تمام لوگوں نے شرکت کی تھی اس قومی جرگے نے عافیہ کی رہائی کی لیے قرارداد پاس کر کے حکومت کوبھیجوائی تھی مگر حکومے ٹس سے مس نہ ہوئی۔
ڈاکٹر فوزیہ کی طرف سے سندھ ہائی کورٹ میںرٹ پیٹیشن دائر کی گئی تھی جس نے اپنے فیصلے میں وفاقی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ امریکا کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کر کے عافیہ کو باقی قید پاکستان میں پوری کرنے کے لیے امریکا کی قید سے پاکستان لایاجائے مگر اس حکم پر حکومت نے عمل نہیں کیا اس پر ڈاکٹر فوزیہ نے وفاقی حکومت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی جس پر عدالت نے وفاقی حکومت سے کہا کہ دو سال ہوگئے عدالت کے حکم پر اب تک کیے گئے اقدامات سے ٦ نومبر تک عدالت کو آگاہ کرے۔
ہماری سمجھ کے مطابق جس جس سے عافیہ موومنٹ کے تحت رابطہ کیا گیا اس نے اپنی حد تک عافیہ کی رہائی کی کوششیں کی جس میں حکومتیں بھی شامل ہیں مگر شیطان کبیر امریکا نے ایک کی بھی بات نہیں مانی اور عافیہ ابھی تک اس کی قید میںہے ۔ پاکستان کے کالم نگاروں سے رابطے کیے گئے جنہوں نے اپنے کالموں کے ذریعے عافیہ کی رہائی کے لیے مہم چلائی ہوئی ہے۔ان کالم نگاروں ،جن میں دینی مدرسوں کے حضرات بھی شامل ہیں عافیہ موومنٹ نے اس جد وجہد میں شرکت پر ان کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات اور سر ٹیفکیٹ بھی دیے۔
کچھ عرصہ قبل فوزیہ صاحبہ کئی دن تک اسلام آباد میں مقیم رہیں اور اس کیس کو نواز حکومت کی کیبنیٹ میٹنگ میں منظوری کے لیے رکھوایا مگر اس ساری کوشش کے باوجودعافیہ کی رہائی ممکن نہیں ہو سکی۔ صاحبو! راقم پچھلے پچاس برس سے ایک سیاسی جماعت سے وابسطہ ہے اور اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ سیاسی پارٹیاں بھی اتنی محنت سے کسی فرد کی رہائی کے لیے کیس کو نہیں اُٹھا سکتی جتنی ایک کمزور سے خاتون ڈاکٹر فوزیہ نے عافیہ موومنٹ کے تحت ڈاکٹرعافیہ کی رہائی کے لیے کوشش کی ہے شاید ابھی تک اللہ کو عافیہ کی وطن واپسی منظور نہیں مگر اللہ کی رحمت پر عافیہ موومنٹ کا خاندان کا کامل بروسہ ہے۔ نواز شریف صاحب کے آئندہ ہونے والے امریکی دورے جس میں پاکستان کی خاتون اوّل بھی شریک ہونگی کی مناسبت سے خاتون اوّل کو عافیہ کی ضعیف اور کمزور والدہ کی طرف سے ایک اپیل خط کی شکل میں جاری ہوا ہے۔اس خط کی ای میل کے ذریعے ہمیں بھی اطلاع دی گئی ہے۔ جس میں خاتون اوّل بیگم کلثوم صاحبہ سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ عافیہ کی رہائی کے لیے کوشش کریں۔ اپنے خط میں خاتون اوّل کو مخاطب کر کے عافیہ کی بوڑھی اورکمزورماں نے کہا جس طرح آپ کی پیاری بیٹی مریم نواز ہے اسی طرح میری بیٹی عافیہ بھی ہے آپ ایک ماں ہیں اور بیٹی کے غم سے بخوبی آگاہ ہیں۔ میری بیٹی کو بے غیرت آمر نے اپنے شیطانی آقائوں کے سپرد کر دیا۔
Dr Fauzia Siddiqui
جمہوری لیڈروں نے تو بار بار ڈالروں کی چمک کے آگے قومی غیرت و ناموس کو پس پشت ڈال ڈیا۔میری بیٹی پر ظلم کی انتہا ہو رہی ہے۔میری بیٹی کی معصومیت کی گواہی قانون دانون سے لے کر عام انسانوں تک دی ہے۔ صرف میں ہی نہیں ساری باشعور دنیا بھی دیتی ہے۔اس بات کو خود حکومت پاکستان بھی تسلیم کر چکی ہے۔ آپ خود ایک ماں ہو کر سوچیں کہ روزانہ میرے دل پر کیا گذرتی ہو گی۔میں روز جیتی ہوں روز مرتی ہوں۔میں ایک ماں کی حیثیت سے آپ سے فریاد کرتی ہوں کہ آپ اپنے شوہر میاں محمد نواز شریف کو ان کا کیا ہواوعدہ یا دد لائیں اور ایک بار نہیں بار بار یاد دلائیں اس لیے کہ عافیہ پر کیا ہوا ہرظلم پاکستانی عورت کی ناموس پر سیاہ داغ ہے۔ قیام پاکستان کی جد وجہد میں ہمارے آباء واجداد نے بیش بہا قربانیاں دیں۔ میری والدہ ایک نواب خاندان کی بیٹی ہوتے ہوئے اپنا سب کچھ قائد اعظم کے حوالے کیا۔میرے شوہر تحریک پاکستان کا نمائیں رکن تھے۔میرے دادا نے انگریزوں سے ملے عہدے تحریک آزادی میں قربان کر دیے۔میری بہادر نانی تانگوں میں بھر بھر کرخواتین کو ووٹ ڈلوانے اور جلسے جلوسوںمیں شرکت کراتی تھی ۔میرے دادا بڑے زمیندار اور انڈیا کے معروف وکیل اور اٹارنی جنرل تھے۔ ہمارے خاندان نے پاکستان اس لیے ہجرت کی کہ جہاں ہماری عزتوں کا تحفظ ہو گا۔آپ کا خاندان پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے میں آپ سے کھلے خط کے ذریعے اپیل کرتی ہوں کہ آپ اپنا کردار آج نہیں تو کب ادا کریں گی۔
عافیہ کی واپسی آپ پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔محترمہ کلثوم نواز شریف صاحبہ آپ کو وہ دور بھی یقیناً یاد ہو گا جب آپ کے شوہر کے قید اور نظر بند تھے تو آپ نے ان کی رہائی کی جد وجہد کا بیڑا اُٹھایا تھا۔ اللہ نے آپ کو تیسری بار حکومت کرنے کاموقعہ دیا ہے تو خدا را آپ بھی میری بیٹی کی آزادی کا علم اُٹھائیں امریکی صدر سے عافیہ کی واطن واپسی کی درخواست کریں۔ اس سے آپ کے شوہر کا سر قوم کی نظر میں فخر سے سر بلند ہو گا اللہ ممتا کو ہمیشہ ٹھنڈی چھائوں میں رکھے اور آپ کو توفیق دے کہ عافیہ کی واطن واپسی میں اپنا کردار ادا کر سکیں آمین۔قارئین ! عافیہ کی ضعیف اور کمزور ماں کی اپیل پر سب پاکستانی غور کریں اور اپنے اپنے دارہ اختیار میں امت مسلمہ کی مظلوم بیٹی عافیہ کی وطن واپسی کی کوششوں میں اپنا حصہ ادا کریں اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ سے بھی عافیہ کی رہائی کے لیے دعا کریں ایک نہ ایک دن اللہ ضرور اپنے بندوں کی دعا قبول کرے گا۔
Mir Afsar Aman
تحریر: میر افرامان، کالمسٹ کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان اسلام آباد(سی سی پی)