شاہ عبداللہ انتقال کرگئے

King Abdullah

King Abdullah

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم

بیشک …!!موت کا ذائقہ ہر نفس کو چکھنا ہے“ازل ہی سے یہ قانونِ قدرت ہے کہ ہر نفس کو ایک محد ود وقت تک دنیامیں رہناہے،اور اپنا وقت گزارکرواپس اُسی جانب لوٹ جاناہے، جدھر سے یہ آیاتھا،اَب اِس بات سے یقین ہو جانا چاہئے کہ اِس دنیا پر ایک ایسی ہستی یعنی کہ ربِ کائنات اللہ رب العزت کی حکمرانی ہے جو ازل سے ہے اور ابدتک رہے گا

جوقادرِ مطلق ہے اِس کے نظام میں یوںہی اچھے اور بُرے اِنسان ایک ٹائم کے لئے آتے ر ہیں گے اور اپناوقت گزارکر حکمِ ربی سے واپس اُسی کے پاس لوٹ جائیں گے جس نے اِنہیں دنیامیں بھیجاتھا،اوریہ سلسلہ تا قیامت چلتارہے گا لوگ آتے رہیں گے اور جاتے رہیں گے جب پرانے جائیںگے تو اِن کی جگہہ نئے لوگ آئیں گے اور وہ بھی دنیامیں اللہ کے دیئے ہوئے فرائض اور اپنے حصے کی سونپی ہوئی ذمہ داریاں نبھاکر واپس اپنے رب کی جانب چلے جائیں گے۔

جیساکہ جمعہ اور جمعرات کی درمیانی شب خدائے بزرگ برتر کی جانب سے عطاکردہ اپنی زندگی کے91سال انتہائی تزک و احتشام اور اُمتِ مسلمہ کو ایک لڑی میں پروکررکھنے اور اِسے(بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان جیسے اپنے بردارملک پہ ہمیشہ )اپنے دستِ شفقت کا سایہ مہیاکرنے والے خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز السعودجو مختصر عرصے پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلارہے بالآخراِن کا یہ عارضہ اِن کے انتقال کا سبب بنااور آپ 23جنوری 2015 بمطابق 2 ربیع الثانی 1436 ھ کو دارالحکومت ریاض میں انتقال کرگئے۔ اِناللہ وَاِنااِلیہ ِ راجِعُون۔

شاہ عبداللہ 1924 میں ریاض میں پیداہوئے، ابتدائی تعلیم شاہی محل میں ہی حاصل کی کچھ سال صحرائی قبائل کے ساتھ رہے جنہوں نے عرب کی مخصوص اقدار اور روایات سے اِنہیں روشناس کرایا، 1962 میں شاہ فیصل نے اِنہیں نیشنل گارڈ کی کمانڈ سوپنی، 1975 میں نائب وزیراعظم دوم مقرر کئے گئے ،1982 ءمیں جب اِن کے سوتیلے بھائی شاہ فہدتخت نشین ہوئے تو شاہ عبداللہ کو ولی عہدنامزد کیا، شاہ فہدکی وفات کے بعدیکم اگست 2005 کو شاہ عبداللہ تخت نشین ہوئے، وہ سعودی عرب کے چھٹے بادشاہ، زورا کی کونسل کے سربراہ اور نیشنل گارڈز کے کمانڈر بھی تھے

شاہ عبداللہ کو مذہب ، تاریخ اور عرب ثقافت کے موضوعات سے خاص دلچپسی تھی، اُنہوں نے اپنے دورمیں مملکت کی ترقی پر خصوصی توجہ دی اور تعلیم، صحت ،انفرااسٹرکچر اور معیشت کے شعبوں میں کئی بڑے منصوبے شروع کئے،شاہ عبداللہ کے نمایاںکارناموں میں مسجدالحرام اور مسجدنبویﷺ کی توسیع کے منصوبے خاصی اہمیت کے حامل ہیں اِن کے علاوہ شاہ عبداللہ سعودی عرب کے لئے نمایاں کارنامے اور منصوبے ہیں اُن میں4اقتصادی شہروں کے قیام کا منصوبہ ،شاہ عبداللہ یونی ورسٹی، پرنسس نورا یونی ورسٹی کا قیام اور کئی بڑے فلاحی منصوبے شامل ہیں

اُنہوں نے سعود ی عدالتی نظام کی تاریخی تشکیل نو کی بھی منظوری دی، اِس سے انکار نہیں کہ شاہ عبداللہ نے عالمی سطح پرعالم اسلام کے وقار کو اجاگرکرنے کے لئے جو کردار اداکیاہے اِسے اُمتِ مسلمہ کا عظیم اثاثہ قراردیاجاسکتاہے آپ میں ایک فطری قائدانہ صلاحیت تھی،آپ ایک مدبراور سچے و کھرے اِنسان تھے،آپ نے ہمیشہ عالمی امن و استحکام، عرب اور اسلامی دنیاکے دفاع کے لئے بین الاقوامی سفارت کاری کا ایک انمٹ کرداراداکیاہے جِسے اسلامی دنیاصدیوں یار کھے گی۔

خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز السعود کے انتقال کی یہ خبراسلامی جمہوریہ پاکستان وعالم اسلام سمیت ساری دنیا میں انتہائی دُکھ اور افسوس کے ساتھ سُنی گئی،جہاں شاہ عبداللہ کے انتقال پر سعودی عرب میں 3،مصر میں7، اردن میں 40 تو وہیں سعودی عرب کے سب سے زیادہ چہیتے اور برادر ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی سوگ کا اعلان کیا گیا،شاہ عبداللہ کی نمازِ جنازہ جمعہ کے روز بعدنمازِ عصر اداکی گئی

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

جن کی نمازِ جنازہ میں شاہی خاندان کے افراد کے علاوہ خصوصی طور پر پاکستان سے وزیراعظم نواز شریف اور اِن بھائی شہباز شریف اور اسلامی ودیگر ملکوں کے سربراہان اور نمائندوں نے بھی شرکت کی جنہیں السعود قبرستان میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپردخاک کی گیا اِس موقعے پر پاکستان اور امریکا سمیت بہت سے ممالک کے صدوراور نمائندوں نے شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز السعودکے انتقال پر اظہارافسوس کے پیغامات میںاِن کے انتقال سے پیدا ہونے والے خلاءکو عظیم نقصان قرار دیا ہے۔

آج اِس میں کوئی شک نہیں کہ خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز السعودکے انتقال سے اُمتِ مسلمہ کو عظیم نقصان سے دوچارہوناپڑاہے اور آج یقینایہ ایک اپنے ایک اہم ترین ستون سے محروم ہوگئی ہے تووہیں پاکستان بھی اپنے ایک انتہائی مخلص اور بھائی کی طرح محبت کرنے والے ایک عظیم دوست اور بھائی سے بھی محروم ہوگیاہے

آپ کو پاکستان کے سیاسی و اقتصادی ماحول سے بھی خاص دلچسپی تھی یہی وجہ تھی کہ آپ پاکستان کے سیاسی و اقتصادی صورت حال کی پل پل بدلتی کیفیات سے بھی خوب واقف تھے مرحوم شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز اپنے برادر ملک پاکستان کے لئے روایات سے ہٹ کر بڑاکام کرنے کا ارادہ رکھتے تھے،مگر اِن کی زندگی نے ساتھ نہ دیااور وہ اپنا یہ خواب دل میںلئے ہی اِس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے اور پاکستان سمیت دیگر اسلامی ملکوں کو روتا چھوڑ گئے ۔

اگرچہ آج اپنے سوتیلے بھائی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے انتقال کے بعدسعودی عرب کاتختِ بادشاہت سنبھالنے والے نئے شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعودکی پیدائش 31 دسمبر 1935 میں ہوئی ہے،سعودی عرب کے اَب نئے سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز السعودسات سدیری بردران میں شاہ فہد مرحوم کے بعد دسرے بااثر سدیری بن کر اُبھرے ہیں سدیری بردران میں شاہ فہد مرحوم (2005-1920)، سابق وزیردفاع شہزادہ سلمان مرحوم، سابق نائن وزیر دافاع شہزادہ عبدالرحمن (پیدائش 1931)، سابق وزیرداخلہ شہزاد نائف مرحوم (2012-1934)، سابق نائب وزیردفاع شہزادہ ترکی (پیدائش 1934) اور موجودہ شاہ اور سابق وزیردفاع شاہ سلمان (پیدائش 1935) اور سابق وزیرداخلہ شہزادہ احمد(پیدائش 1942) شامل ہیںاِن سدیری برادران کی چابہنیں شہزادی لولواہ(2008-1928)، شہزادی لطیفہ، شہزادی جوہرہ اور شہزادی جواہر ہیں ،اِس طرح شاہ عبدالعزیز کی حصہ بنت احمدالسدیری سے 11اولادیں ہوئیں، حصہ کے والد احمد بن محمد السدیری (1936-1869) اپنے سدیری قبیلے کے سردار تھے

سعودی عرب فتح کرنے میں شاہ عبدالعزیز کے اولین ساتھیوں میں سے تھے جنہیں وشم ، سدیر، قسیم اور العلج صوبوں کا گورنر مقررکیاگیا،شاہ عبدالعزیزکے برادران نسبتی ترکی، عبدالعزیز، خالد، محمد، عبدالرحمن اور مسیدبھی گورنرزرہے، جبکہ یہاں ایک سب سے اہم اور دلچسپ امریہ ہے کہ شاہ سلمان اپنے بقید حیات 6 بھائیوں مشعل (1926)، عبدالرحمن 1931)) مطیب(1931) ،طلال(1931)،نواف(1933)اور ترکی (1934)میں سب سے چھوٹے ہیں،انہو ں نے 5بھائیوں شاہ سعود(1969-1902)،شاہ فیصل(1975-1906)،شاہ خالد(1982-1913)، شاہ فہد(2005-1920) اور شاہ عبداللہ(2015-1924)کو بادشاہ دیکھاہے، شاہ عبدالعزیز سے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 37بیٹوں کے باپ تھے جبکہ دوسرے ذرائع اِن کے بیٹوںکی تعداد 43 بتاتے ہیں، سعودی عرب کے موجود شاہ جن کا نام بادشاہ سلمان ہے اِن کے بارے میںہے کہ یہ بانی سلطنت شاہ عبدالعزیز کے 25 ویں نمبر کے ہونہار بیٹے ہیں،یہ ایک لمبے عرصے تک ریاض کے گورنر رہے یوں اِنہوں نے 57برس ریاض کی تعمیر وترقی میںاہم کردار ادا کیا ہے۔

اگرچہ یہاں بعض یورپی ذرائع ابلاغ کا (اپنے تئیں )یہ تجزیہ ضرورہے کہ جہاں شاہ عبدالعزیزکے بیٹوں نے کاروبارمیںدلچسپی لی اور اِس حوالے سے سعودی عرب سمیت دنیابھر میں اپنی ایک نمایاں ساکھ قائم کی تو وہیںسدیری براردان کی دلچسپی مُلکی اور عالمی سیاست سے بھی وابستہ رہی جب شاہد عبدالعزیز کا 1953میں انتقال ہواتو ان کے سب سے بڑے بیٹے شاہ سعودنے جگہہ لی تاہم شاہ عبدالعزیز نے اپنے دوسرے بڑے بیٹے کو ولی عہدمقررکردیاتھا اِس کے بعدسے آل سعود میں اقتدار بڑے سے اِس کے بعدکے نمبرکے بھائی کو منتقل ہوتارہااور ابھی تک یہ بھائیوں میں ہی منتقل ہوتاچلاآرہاہے،ابھی شاہ عبدالعزیزکے پوتوں کی باری نہیں آئی ہے،وسیع تر آل سعودمیں شہزادوں کی تعدادچھ ہزاربتائی جاتی ہے

تاہم یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جو شہزادے عرب ماو¿ں سے نہیں ہیں اِنہیں زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہے بتایاجاتاہے کہ ابن سعود کے 5بیٹے امریکی ماو¿ں سے ہیں ( سعودی عرب کا شاہی خاندان اِس کی اصلاح کرے کہ آیا کہ ایساہی ہے جیساکہ مغربی ذرائع ابلاغ چیخ رہاہے یا حقائق وہ نہیں ہیں جو یہ کہہ رہاہے)آل سعودکا خفیہ حلقہ بادشاہ اور ولی عہد کا چناو¿ کرتاہےاور ایک موقع پرتو اِس نے 1964میں شاہ سعودکو معزول بھی کیا،جبکہ 1992 میں شاہ فہد نے خودہی اپناجانشین اور ولی عہدمقرر کرنے کا اعلان کیا۔

اَب مستقبل کے ولی عہدکی منظوری شاہی کمیشن دیتاہے جو ابن سعود کے بیٹوںپر مشتمل ہے اختلاف رائے کی صورت میں بادشاہ وقت تین نام تجویز کرتے ہیں جن میں سے استصواب کے ذریعے ایک کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

جبکہ یہاں یہ امر اُمت مسلمہ اور عالمی برادری کے لئے خوش آئند اور حوصلہ افزاہے کہ آج سعودی عرب کے نئے بادشاہ شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز السعود نے سلطنت کا عہدہ سنبھالنے کے بعداپنے پہلے خطاب میں صاف اور واضح طور پر کہہ دیاہے کہ سعودی عرب کی سمت میں کوئی تبدیلی نہیںآئے گی ، ملک موجودہ سمت میں ہی آگے بڑھتارہے گا

تمام مسلمانوں کو متحد ہو کر رہنا چاہئے،“اُمیدہے کہ سعودی عرب کے نئے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیزاپنی اعلی صلاحیتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے اپنے پیش رومرحوم شاہ عبداللہ کی طرح نہ صرف سعودی عرب بلکہ اُمتِ مسلمہ کے لئے بھی اپنی خدمات انجام دیں گے اور خصوص بالخصوص اپنے برادر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بھی ہر مشکل گھڑی میں مدد اور معاونت فراہم کریں گے جیسے اِن سے پہلے والی شخصیات کسی بھی مشکل لمحے پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہوتی تھیںاور پاکستان پر اپنا دستِ شفقت رکھاکرتی تھیں اور یہ بھی اُمیدہے کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیزاُمتِ مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کے لئے مفاہمت اور مصالحت سے کام لینے کے بجائے اُمتِ مسلمہ کی بقاو سالمیت کے خاطر دوٹوک فیصلہ کریں گے۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com